حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
چلے آ رہے ہیں۔ میں آگے بڑھ کر آپ سے ملا۔ اور ساتھ ساتھ مکان پر آیا۔ آپؓ نے مشکیں اتاریں۔ اس کے بعد مجھ سے دریافت کیا کہ تم کون ہو۔ میں نے کہا کہ آپؓ سے ملنے کی مجھے تمنا بھی تھی اور آپؓ کی ملاقات سے مجھے نفرت بھی تھی۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا! یہ دونوں باتیں کیونکر ساتھ جمع ہوسکتی ہیں۔ نعیم نے کہا کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کیا ہے۔ اب مجھے اس کی فکر ہے کہ میرا گناہ معاف ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہو سکتا ہے تو اسکی کیا صورت ہے۔ اس کا کفارہ بھی ہے یا نہیں۔ پس جب دل میں یہ خیال آتا تھا کہ آپ ہی میرے لئے کوئی راستہ پیدا کریں گے اس وقت ولولہ ہوتا تھا کہ آپ سے مل ہی لوں۔ پھرکبھی خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں آپؓ نے مجھے مایوس العلاج قرار دیا تو یہ عمر بھر کا ایک غم میرے ساتھ لگ جائے گا اور اس کے بعد مجھے آپؓ سے نفرت پیدا ہو جاتی تھی۔۱؎ حضرت ابوذرؓ نے اس کے بعد فرمایا کہ یہ حرکت تم نے کفر کے زمانہ میں کی ہے یا اسلام میں نعیم نے کہا کہ ایامِ کفر میں۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا تو پھر کیا پروا ہے ( یعنی اسلام خود ہی تمام گناہوں کا کفارہ اور کفر کے زمانہ کی ہر قسم کے گناہوں کو ڈھا دینے والا ہے) نعیم سے یہ فرمانے کے بعد آپؓ اپنی بیوی کی طرف مخاطب ہوئے اور کچھ سر سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ مہمان کے لئے کچھ کھانا لاؤ۔ بیوی صاحبہ ------------------------------ ۱؎ اس قسم کی متضاد کیفیتیں مجذوبوں کی جانب سے عام طور پر دلوں میں پیدا ہوتی ہیں دعا و بدعا کی امید و خوف میں ہر شخص ان کی جانب سے یہی دونوں خیال رکھتا ہے۔