حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور ان شاء اللہ واقعیت سے وہ بہت زیادہ قریب ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سیکھتے تھے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سکھاتے تھے عمومًا وہ علوم ایسے ہوتے تھے جن کو براہ راست عمل سے تعلق تھا۔ کیونکہ اعتقادات کے باب میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اجمال و ایمان بالغیب کے مضبوط و محفوظ اصول کو پیش نظر رکھا۔ جو کچھ بھی تفصیل کی وہ محض عملیات کی کی ۔ ماسوا اس کے عام طور پر عقاید کے متعلق جو یہ مشہور ہے کہ وہ صرف ماننے اور ایمان لانے کی چیزیں ہیں۔ عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے میرے نزدیک یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ ظاہری اعمال کی پابندی یقینًا ایک بڑی آزمایش اور شریعت کا اہم مطالبہ ہے لیکن عقائد صحیحہ جن کو ہم علوم صحیحہ بھی کہہ سکتے ہیں ان کو اپنے اندرونی احساسات یقین و اذعان کے ساتھ وابستہ کرنا اور ان کے مقابل جو باطل اور کاذب معلوم ہیں ان کو مٹانا جہاں تک تجربہ کا تعلق ہے اعمال جوارح سے یہ زیادہ مشکل ہیں۔ بہرحال عقاید ہوں یا اعمال عمل کی دونوں میں ضرورت ہے۔ حضرت ابوذرؓ میں قبول و اثرپذیری کا مادہ جتنا تیز تھا وہ تم پڑھ چکے اور واقعات سے خود بھی اندزہ لگا سکتے ہو۔ یہی وجہ ہوئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جو کچھ سنتے تھے ٹھیک اسی طرح اس پر عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے۔ بلا کسی چون و چرا کے جس طرح آپ سے سنتے کوشش کرتے کہ اسی طرح ہم اسے ادا بھی کر دیں وہ چاہتے تھے کہ میرا عملی نقشہ علمی نقشہ پر پورے طور سے منطبق ہو جائے۔ اس باب میں ان کو اس قدر غلو اور تشدد تھا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی