حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
’’ اپنی امت کے لئے گڑ گڑا رہا تھا۔ ‘‘ حضرت ابوذرؓ کی زبان کھل چکی تھی اب کیا رکتی۔ سوال آگے بڑھا۔ پوچھنے لگے کہ ’’ تو پھر آپ کو کیا جواب ملا؟ اور حق تعالیٰ نے کیا فرمایا۔ ‘‘ گناہگاروں کے شفیع، آقائے کرم گستر نے اس کے جواب میں فرمایا ’’ مجھے وہ جواب ملا کہ اگر اس کی بھنک بھی لوگوں کو مل جائے تو لوگ نمازیں چھوڑ بیٹھیں۔‘‘۱؎ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت دوسرے حال میں تھے۔ جوش سے سینہ معمور تھا۔ عالم سرمستی میں بولے۔ ’’ تو کیا دنیا کو یہ بشارت سنا دی جائے؟ ‘‘ رحمۃ للعٰلمین کا سمندر بھی اپنی انتہائی مد اور چڑھاؤ پر تھا ارشاد ہوا کہ بلیٰ۔ کیوں نہیں بلیٰ کی آواز میں بلا کی طاقت تھی سننا تھا کہ ابوذرؓ اٹھے اور اس مژدے کے اعلان عام کے لئے چل پڑے، کہتے ہیں کہ جا ہی رہا تھا، اور اتنی دور پہنچا تھا جہاں تک کسی پتھر پھینکنے والے کا پتھر پہنچ سکتا ہے کہ اتنے میں حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دربار رسالت میں عرض کرنے لگے انک ان نبعث الی الناس بھذا تکلوا عن العبادۃ اگر لوگوں کے پاس یہ بشارت بھیجی جائے گی تو وہ عبادت سے روگرداں ہوجائیں گے۔ ------------------------------ ۱؎ بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ میں اپنی امت کی شفاعت کر رہا تھا اور میری امت میں جو شرک سے بچا رہا وہ اس شفاعت کو پا کر رہے گا یعنی ھی نائلہ لمن لا یشرک باللہ شیئا ص١۳ ج ۳