حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
موجود نہ تھا۔ تیمم کا مسئلہ آپؓ کو چونکہ معلوم نہ تھا۔ اس لئے دوڑتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر چلانے لگے۔ ھلکت یا رسول اللہ میں تباہ ہو گیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے پوچھا ’’ کیوں، کیوں ‘‘ ؟ بولے کہ ’’ میں جہاں تھا وہاں میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی۔ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی اب کیا کرتا۔ نماز قضا ہوئی‘‘ گویا اسی کو اپنی ہلاکت سے تعبیر کر رہے تھے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تیمم کا طریقہ بتایا۔ نماز چھوڑتے تو کہاں تک۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خصوصیت کے ساتھ نماز کے مسئلہ میں آپؓ کا انہماک اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ خود ہی فرماتے ہیں۔ کسی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی اس کے بعد دیکھا کہ لوگ نماز کے بعد بھی اٹھنا نہیں چاہتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اپنی قیام گاہ کی طرف اٹھ کر چلے گئے جب آپ ﷺ نے اچھی طرح اندازہ کر لیا کہ لوگوں کی آنکھیں گھنا گئیں ( یعنی بند ہو گئیں۔ لوگ سو گئے) اور سناٹا ہو گیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پھر اس مقام پر تشریف لائے جہاں عشاء کی نماز پڑھائی تھی اور تنہا نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میں تاک میں تھا جھپٹ کر آیا اور نیت باندھ کر حضور ﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ میرے داہنے جانب کھڑے ہو جاؤ میں کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد ابن مسعودؓ بھی ( جو غالبًا اسی فکر میں کہیں چھپے بیٹھے تھے) وہاں پہنچے۔ چاہا کہ کھڑے ہوں۔ حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ بائیں جانب کھڑے ہو جائیں۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں اس شام کے بعد ہم دونوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں