كَرِهَ اسْمَهُ رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ.(ابوداؤد:3920)
بدشگونی کا حکم:
بدشگونی حرام ہے ، نبی کریم ﷺ نے بدشگونی کو واضح طورپر ناجائز قرار دیا ہے ، چنانچہ کئی روایات میں آپﷺسے اِس کی قطعی ممانعت منقول ہے ۔ علماء کرام نے اِس کے حکم کی تفصیل میں یہ لکھا ہے کہ :
کفر : جبکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ فلاں چیزنحوست کو سببِ مؤثر کے طور پر پیدا کرتی ہے ۔
مکروہ : جبکہ یہ عقیدہ ہو کہ نحوست تو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتے ہیں لیکن عادۃ ً وہ نحوست اُس شیئ میں ہوتی ہے ۔
یعنی اگرکسی چیز کو بدشگونی کے پیدا ہونے میں مؤثر بالذات سمجھا جائے بایں معنی کہ وہ چیز نحوست کے پیدا کرنے کا حقیقی اور اصلی سببِ مؤثر ہے تو یہ کفر ہے ، کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفتِ تدبیر میں دوسروں کو شریک کرنا ہے ۔اور اگر سببِ مؤثر نہ سمجھاجائے بلکہ کرنے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کو تسلیم کیا جائے لیکن تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر صرف یہ گمان قائم کیا جائے کہ فلاں چیز میں نحوست عام طور پر ہوتی ہے تو یہ کفر تو نہیں، لیکن مکروہ ہوگا۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:4/81)
بدشگونی کی مذمت اور وعیدیں :
بدشگونی شرک ہے۔الطِّيَرَةُ مِنَ الشِّرْكِ.(ترمذی:1614)الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، ثَلَاثًا.(ابوداؤد: 3910)
بیماری کادوسروں کو لگ جانا، الّو کا منحوس ہونا ،چیزوں میں نحوست کا پایا جانا ،صفر کا منحوس ہونا ، ستاروں کا بارش کے نازل ہونے میں مؤثر ہونا ،غولِ بیابانی کا ہونا ، اِن سب کی کوئی حیثیت نہیں۔لَا عَدْوَى، وَلَا هَامَةَ، وَلَا طِيَرَةَ، وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ.(مسلم:2223)لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ.(بخاری: 5757)لَا عَدْوَى، وَلَا هَامَةَ، وَلَا نَوْءَ، وَلَا صَفَرَ.(ابوداؤد: 3912)لَا عَدْوَى، وَلَا غُولَ، وَلَا صَفَرَ.(مسلم: 2222)
جس کو کسی چیز میں نحوست کے عقیدے نے اپنی حاجت پورا کرنے سے روک دیا اُس نے شرک کیا ۔مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ.(طبرانی کبیر:13/22۔ رقم:38)