نبی کریمﷺکا ارشاد ہے:جس نے جھاڑ پھونک کروائی یا داغنے کے ذریعہ علاج کروایااُس نے توکّل نہیں کیا۔لَمْ يَتَوَكَّلْ مَنِ اسْتَرْقَى أَوِ اكْتَوَى.(مستدرکِ حاکم:8279)
تطبیق:
عدمِ جواز کی روایات اُس رُقیہ پر محمول ہیں جن کا معنی و مطلب معلوم نہ ہو، کیونکہ اُن میں کفر کا اندیشہ ہے ، جبکہ جواز کی روایات میں وہ رُقیہ مراد لیا گیا ہے جو ماثور اور منقول ہو نبی کریم ﷺسے ۔(انتہاب المنن:3/27)
عدمِ جواز کی روایت اُس رُقیہ کے بارے میں ہے جس میں شرکیہ کام ہوں ، جبکہ جواز کی روایت سے مراد وہ رُقیہ ہے جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہو ۔ (عون المعبود:10/266)
عدمِ جواز کی روایات سے مراد وہ رُقیہ ہے جس کا کرنے والا اُس کو مؤثر بالذات سمجھتا ہو جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا ، جبکہ جواز کی روایات اُس رُقیہ کے بارے میں ہیں جن کو صرف اسباب کے درجہ میں سمجھ کر کیا جائے ، جیسا کہ علمِ طب میں علاج کیا جاتا ہے ، لیکن اُس طریقہ کو مؤثر بالذات نہیں سمجھا جاتا۔(انتہاب المنن:3/27)
عدمِ جواز کی روایات منسوخ اور جواز کی روایات اُن کے لئے ناسخ ہیں، یعنی اوّلاً پہلے یہ عمل ناجائز تھا، پھر بعد میں یہ حکم منسوخ ہوکر جائز ہوگیا ۔(شرح معانی الآثار:4/328 )
رُقیہ کا حکم :
امام شعبی ، قتادہ اور سعید بن جبیر: رُقیہ کرنا مکروہ ہے ۔
جمہور ائمہ اربعہ کرام: جائز ہے ،جبکہ اُس میں خلافِ شرع کچھ نہ ہو۔(عمدۃالقاری: 12/100)
جمہور کے مسلک کے مطابق رُقیہ کے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ جو رُقیہ آیاتِ قرآنیہ ،اسماءِ الٰہیہ، ادعیہ ماثورہ یا ذکر اللہ کے ذریعہ ہو ، یا ایسے کلمات کے ذریعہ ہو جن کا معنی معلوم ہو اور وہ دین و شریعت کے خلاف نہ ہوں تو اُن کے ذریعہ رُقیہ کرنا جائز ہے ۔البتہ کلمات ِ کُفریہ کے ذریعہ رُقیہ کرنا ، یا غلط عقیدے کے ساتھ رُقیہ کرنا یا ایسے کلمات جن کا معنی معلوم نہیں ،اُن کے ذریعہ رُقیہ کرناجائز نہیں ۔(انتہاب المنن :3/24) (مرقاۃ المفاتیح :7/ 2880)