النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ طِيَرَةَ، وَخَيْرُهَا الفَأْلُ، قَالَ: وَمَا الفَأْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الكَلِمَةُ الصَّالِحَةُ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ.(بخاری: 5755)
حضرت بُریدہ اَسلمی ستر سواروں کے ساتھ رات کو نبی کریمﷺکے ساتھ ملاقات کے لئے آئے، آپﷺنے پوچھا : کون؟ اُنہوں نے جواب دیا :”بُریدہ“۔ نبی کریمﷺنے حضرت ابوبکر صدیق کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا:” بَرَدَ أَمَرُنَا وَصَلُحَ “ہمارا جنگ کا معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور صلح ہوگئی ، پھر آپﷺنے سوال کیا کہ کِس قبیلہ سے تعلّق رکھتے ہو؟ اُنہوں نے فرمایا: ” مِنْ أَسْلَمَ “آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا: ”سَلِمْنَا “ یعنی ہم محفوظ ہوگئے ، پھر آپﷺ نے سوال کیا کہ بنو اسلم میں سے کِس شاخ سے تعلْق رکھتے ہو ؟ اُنہوں نے کہا :” مِنْ بَنِي سَهْمٍ “ یعنی میں بنو سہم سے تعلّق رکھتا ہوں ، آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا: ” خَرَجَ سَهْمُكَ “ یعنی تمہارا حصہ نکل آیا۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَطَيَّرُ وَلَكِنْ كَانَ يَتَفَاءَلُ فَرَكِبَ بُرَيْدَةُ فِي سَبْعِينَ رَاكِبًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ مِنْ بَنِي أَسْلَمَ فَلَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا بُرَيْدَةُ قَالَ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَقَالَ لَهُ يَا أَبَا بَكْرٍ بَرَدَ أَمَرُنَا وَصَلُحَ ثُمَّ قَالَ مِمَّنْ قُلْتُ مِنْ أَسْلَمَ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ سَلِمْنَا قَالَ ثُمَّ مِمَّنْ قَالَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ قَالَ خَرَجَ سَهْمُكَ.(اِکمال اِکمال المعلم علی صحیح مسلم للأبی،6/42)(الاستذکار :8/514)
غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نبی کریمﷺسے مذاکرات کے لئے کفارِ مکہ کی جانب سے مختلف لوگ آرہے تھے اور مذاکرات کامیاب نہیں ہوپارہےتھے ، آخر کار جب سہیل بن عَمرو آئے تو آپﷺ نے اُن کے نام سے اچھا فال لیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”قَدْ سَهَّلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ “یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کو آسان کردیا ہے ۔ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ لَمَّا جَاءَ سُهَيْلٌ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: قَدْ سَهَّلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ.(نیل الأوطار :8/40)
نبی کریم ﷺجس کسی عامل کو روانہ کرتے تو اُس سے نام پوچھتے ، اگر اچھا لگتا تو خوش ہوتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرہ انور پر نمایاں ہوتے اور اگر برا لگتا تو ناگواری کے آثار بھی چہرہ انور پر نظر آنے لگتے تھے ۔ لیکن یہ بد فالی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اِس وجہ سے کہ آپ کو برے نام پسند نہیں تھے ۔أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ عَامِلًا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ، فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمُهُ فَرِحَ بِهِ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ