عموماً لوگ مصائب اور بیماریوں کے ازالے کے لئے قرآن وحدیث میں ذکر کردہ دعائیں پڑھتے ہیں ، لیکن بظاہر فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا ، اُنہیں مذکورہ بالا تینوں امور پر غور کرنا چاہیئے ، اکثر یہی اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یا تو بالکل نفع نہیں ہوتا یا بہت تھوڑا اور دیر سے ہوتا ہے ۔
زمانہ جاہلیت کا رُقیہ غیر شرعیہ :
اِسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے عجیب و غریب قسم کے طریقے رائج تھے اور اُن میں بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں پائی جاتی تھیں ، اُنہیں” رُقیہ جاہلیہ “ کہا جاتا ہے ، جو جائز نہیں ۔ مثلاً:
منتر پڑھے جاتے تھے ، جن میں شیاطین و جنات اور بتوں سے مدد مانگی جاتی تھی ۔
اُن منتروں میں مُشرکانہ یعنی شرکیہ الفاظ ہوتے تھے ۔
اُن منتروں کو لوگ مؤثر بالذات سمجھا کرتے تھے ۔
ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن کا معنی اور مطلب کسی کو سمجھ نہیں آتا تھا ۔
پس اِن تمام خرابیوں کی وجہ سے وہ رُقیہ ناجائزقرار پایا۔اور اسی سے یہ بات سمجھ آگئی کہ رُقیہ سے متعلّق وہ تمام روایات جن میں نبی کریمﷺنے رُقیہ کو شرک اور حرام فرمایاہے ، یا اُسے توکّل کے خلاف کہا ہے ، اُس کا مطلب یہی ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت کا رُقیہ تھا جو شرک اور دیگر کئی مفاسد پر مشتمل تھا ، پس آج بھی اگر اُس طرح کا رُقیہ اختیار کیا جائے اور اُنہی خرابیوں پر مشتمل جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے کیے جائیں تو اُن کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ۔(اصلاحی خطبات:15/40)
اجرت علی الرّقیہ اور اجرت علی الطاعۃ :
رُقیہ شرعیہ پر اجرت لینا جائز ہے ، جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری کی حدیث(ابوداؤد:3900)سے صراحۃً رُقیہ کا جواز ثابت ہوتا ہے اوریہی جمہور ائمہ اربعہ کا مسلک ہے ۔(بذل المجہود:16/228)
البتہ اسی سے متعلّق ایک اور مسئلہ ہے جس کو”اجرت علی الطاعۃ“ کا مسئلہ کہا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کے کام مثلاً امامت کرنے ، اذان دینےاور قرآن کریم وغیرہ کی تعلیم دینےکی اجرت لینا ،اِس میں اختلاف ہے :