پہلا قول:مباح ہے : اِ س لئے کہ صحابہ کرام کا نبی کریمﷺ سے علاج کے بارے میں سوال کرنا اباحت کے لئے تھا تو بظاہرجواب میں بھی امر اباحت پر ہی محمول ہوگا۔
دوسرا قول:مستحب ہے : اِس لئے کہ نبی کریمﷺنے بھی علاج کروایا ہے ، پس آپ کی اتباع میں یہ عمل مستحب ہوگا ۔
تیسرا قول :مکروہ ہے :اِن حضرات کے مطابق علاج کرنا توکّل کے خلاف ہے ، پس علاج کے بغیر اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہیئے ۔ لیکن یہ قول قابلِ اعتبار نہیں ، جمہور نے اِس کو رد کیا ہے ۔اِس لئے کہ نصوص اور خود آپ ﷺ کے عمل سے اِس کی کسی طرح تائید نہیں ہوتی ۔(عون المعبود :10/239)راجح قول استحباب کا ہے ۔ (شرح الطیبی :9/2954)
تطبیق: امام غزالی نے تمام اقوال میں بہترین تطبیق پیش کی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں :
اگر کسی دوائی میں علاج کا ہونا قطعی طور پر معلوم ہو: تو علاج ضروری ہے ، اگر نہ کیا اور مرگیا تو گناہ گار ہوگا ۔
اگر کسی دوائی میں علاج کا ہونا ظنی طور پر معلوم ہو : تو علاج جائز ہے ، نہ کیا تو گناہ گار نہ ہوگا ۔
اگر کسی دوائی میں علاج کے ہونے کا صرف وہم ہو : تو علاج کا ترک اولیٰ ہوگا اور اِس کو توکّل کہا جائے گا۔ (العرف الشذی للکشمیری:3/348)
علاج کی شرائط :
پہلی شرط:شیئِ حرام سے علاج نہ کیا جائے ۔
حضرت ابو درداء نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ۔إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الدَّاءَ وَالدَّوَاءَ، وَجَعَلَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَتَدَاوَوْا وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍیعنی اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دواء دونوں اتاری ہیں اور ہر بیماری کے لئے علاج بھی اتارا ہے ، پس تم لوگ علاج کیا کرو، لیکن حرام چیز سے علاج نہ کرو۔(ابوداؤد:3870)
بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول تعلیقاً نقل کیا گیا ہے کہ : إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کے اندر انسان کی شفاء نہیں رکھی ۔(بخاری :7/110)