اگر اعتقاد یہ ہو کہ بارش برسانے والا فلاں قسم کا ستارہ ہے، جیساکہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا تصوّر تھا تو کفر ہے ، اور اگر مقصود یہ ہو کہ بارش تو اللہ تعالیٰ ہی برساتے ہیں ، لیکن ظاہری طور پر فلاں ستارے کا طلوع یا غروب ہونا اِس کی علامت ہے تو یہ کفر تو نہیں البتہ مکروہ پھر بھی ہوگا ، اِس لئے کہ یہ ایک مُوھِم کلمہ ہے جس میں ایمان و کفر دونوں ہی کا احتمال ہے ، لہٰذا موضعِ تہمت سے بچنا لازم ہے ، نیز اِس میں کافروں کے ساتھ مشابہت بھی پائی جاتی ہے جو خود ناجائز ہونے کی مستقل ایک دلیل ہے ۔(عون المعبود:10/286)
” لَا غُولَ “کا مطلب:
” غُول “ غین کے ضمہ کے ساتھ جن کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے ، اِس کی جمع ”غِيلَان“ آتی ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ جنگلات اور بیابان جگہوں میں ہوتا ہے اور مسافروں کے سامنے مختلف شکلوں میں متشکِّل ہوکر آتا ہے اور اُنہیں راستہ سے بھٹکا کر ہلاک کردیتا ہے ، اردو میں بھی اِس کو ”غول بیابانی “ کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے ۔نبی کریمﷺنے ” لَا غُولَ “ کہہ کر یہ بتادیا کہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ (اصلاحی بیانات،مجموعہ بیانات سکھروی :1/299)
واضح رہے کہ حدیث میں غُول کے وجود کی نفی نہیں ، بلکہ جاہلیت کے نظریے” وہ مختلف شکلوں میں متشکل ہوکر لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے “کی نفی ہے ، پس مطلب حدیث کا یہ ہوجائے گا کہ غُول کی یہ مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو گمراہ کردے۔(مرقاۃ المفاتیح :7/2895)
” الْعِيَافَةُ “کا مطلب:
عین کے کسرہ کے ساتھ آتا ہے ۔ هِيَ زَجْرُ الطَّيْرِ وَالتَّفَاؤُلُ بِأَسْمَائِهَا وَ اَصْوَاتِهَا وَ مَمَرِّهَا۔یعنی پرندوں کو اُڑا کر اُن کے دائیں بائیں جانے سے اچھا یا برا شگون لینا ، پرندوں کے ناموں اور اُن کی آوازوں اور گزرجانے سے فال لینا ”عِیافہ“ کہلاتا ہے ، مثلاً ”عُقاب “ پرندے سے عِقاب سمجھنا ، ”غُراب “ پرندے سے غُربت سمجھنا اور ”ھُد ھُد“ پرندے سے راہ یاب ہونے کو سمجھنا ،یہ سب زمانہ جاہلیت کے نظریے تھے جس پر اُن لوگوں کا اعتقاد ہوتا تھا ، نبی کریمﷺ نے ان کو شیطانی عمل قرار دیا ۔(بذل المجہود:16/238)(عون المعبود:10/286)