لے آتے ، نبی کریمﷺنے اِس عمل کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ صفر کے مہینے میں نسیئہ نہ کیا جائے ۔(بذل المجہود :16/243)
” صَفَرَ “ ایک پیٹ کی بیماری ہے جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دوسروں کو لگ جاتی ہے ، آپﷺ نے اِس کی نفی فرمائی ۔ اِس تفسیر کے مطابق اِس کا مطلب ” لَا عَدْوَى “ کی طرح ہوگا ، یعنی پیٹ کی بیماری ”صفر “ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر تجاوز نہیں کرسکتی ۔(فتح الباری:10/171)
” صَفَرَ “زمانہ جاہلیت کے نظریہ کے مطابق یہ ایک سانپ کو کہا جاتا ہے جو پیٹ کے اندر ہوتا ہے اور انسان کو کاٹتا ہے ، اور اُس کی وجہ سے انسان مرجاتا ہے، اِس تفسیر کے مطابق اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کا یہ اعتقاد کہ اُس سانپ کے کاٹ لینے سے انسان مرگیا ، یہ صحیح نہیں ۔کیونکہ اول تو پیٹ میں اِس طرح سے سانپ کا ہونا ہی غلط ہے اور پھراگر وہ ہو بھی تو اُس سانپ کے کاٹ لینے سے نہیں ، بلکہ موت تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے ۔(فتح الباری:10/171)
” لَا نَوْءَ “کا مطلب:
” نَوْء “ ستارے کو کہتے ہیں ، اِس کی جمع ” اَنوَاء “ آتی ہے ۔ناءَ ینوءُ یہ اضداد میں سے ہے ، طلوع ہونے اور غروب ہونے دونوں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔زمانہ جاہلیت میں لوگ بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ”مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا “ یعنی ہم پر فلاں ستارے کے طلوع یا غروب ہونے کی وجہ سے بارش ہوئی ۔آپﷺنے اِس سے منع فرمایا اور اِس حقیقت کو واضح کردیا کہ بارش کے برسنے میں ستاروں کی کوئی حیثیت نہیں ، بارش اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح :7/2895)
” مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا “ کہنے کا حکم :
اِس کا مطلب یہ ہے کہ یوں کہنا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسائی گئی ۔یہ کہنا جائز نہیں ، اِس لئے کہ حدیث میں اِس کی صراحۃً ممانعت آئی ہے ۔ البتہ اِس کا کہنے والا کافر ہوتا ہے یا نہیں ، اِس کی تفصیل یہ ہے کہ :