” لَا هَامَةَ “ کا مطلب:
”هَامَة “میم کی تخفیف کے ساتھ آتا ہے ۔ لغت میں اِس کے دو معنی آتے ہیں : (1)کھوپڑی۔(2)رات کا پرندہ ، بعض نے اُس پرندہ کو ”صَدیٰ “ اور بعض نے ” اُلّو“ نقل کیا ہے،اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔(شرح البخاری لابن بطال :9/417)
” لَا هَامَةَ “ کے تین مطلب ہیں :
لَا شُؤْمَ بِالْبُومَةِ۔ یعنی الّو میں کوئی نحوست نہیں،جیساکہ لوگ اُس کو نحوست کی علامت سمجھتے ہیں ، اُس کے دیکھنے کو ، آواز سننے کو یا گھر کی چھت پر بیٹھنے کومنحوس قرار دیتے ہیں ۔(عمدۃ القاری :21/247)
لَا حَيَاةَ لِهَامَةِ الْمَيِّتِ۔ میت کے جسم یا روح سےالّو کے نکلنے اور قصاص کا مطالبہ کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جس شخص کو قتل کردیا جائے اور اُس کا قصاص نہ لیا جائے تو اُس کی روح سے یا ہڈیوں سے اُلّو بن کر نکلتا ہے اور یہ پکارتا رہتاہے کہ ”اسقوني اسقوني“یعنی مجھے قاتل کا خون پلاؤ۔(فتح الباری:10/241)
جاہلیت میں ایک نظریہ یہ بھی مشہور تھا کہ قبر میں میت کی جب ہڈیاں پرانی ہوکر بوسیدہ ہوجاتی تھیں تو وہ ” هَامَة “ پرندے کی شکل اختیار کر لیتیں اور پھر وہ پرندہ قبر سے نکل جاتا ۔(مرقاۃ المفاتیح:7/2894)
” لاَ صَفَرَ “ کا مطلب:
اِس کے چار مطلب ذکر کیے گئے ہیں :
” صَفَرَ “سے مراد صفر کا مہینہ ہے ، جس کو لوگ منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس مہینہ میں بہت سی مصیبتیں اور فتنے نازل ہوتے ہیں ۔نبی کریمﷺنے اِس کی تردید فرمادی کہ اِس سوچ اور نظریہ کی کوئی حیثیت نہیں۔(مرقاۃ :7/2894)
اِس سے مقصود ”نَسِیْء“ یعنی مہینوں کے آگے پیچھے کرنے کے عمل کی نفی کرنا ہے ، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ کیا کرتے تھےکہ محرّم کے مہینے کوصفر کے مہینہ تک مؤخر کردیتے اور صفر کے مہینے کو مقدّم کر کے محرّم کے مہینے میں