نبی کریمﷺکسی چیز سے نحوست اور بدشگونی نہیں لیا کرتے تھے۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ.(ابوداؤد:3920)
بدشگونی کا علاج :
احادیث طیبہ سے ماخوذ چند طریقے ذکر کیے جارہے ہیں جن کو اختیار کرکےان شاء اللہ ! بدشگونی سے بچا جاسکتا ہے ۔
بدشگونی کا نظریہ اور عقیدہ دل سے نکالنا :
اِس کے لئے نبی کریمﷺ کے ارشادات کو سوچا جائے کہ آپﷺنے جب اپنی سچی اور پاکیزہ زبان سے اشیاء میں نحوست کی نفی فرمائی ہے تو اُن میں نحوست کیوں ہوسکتی ہے ، بھلا اللہ اور اُس کے رسول سے زیادہ بھی کسی کا سچا قول ہوسکتا ہے ؟۔لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ.(بخاری: 5757)لَا عَدْوَى، وَلَا هَامَةَ، وَلَا نَوْءَ، وَلَا صَفَرَ.(ابوداؤد: 3912)لَا عَدْوَى، وَلَا غُولَ، وَلَا صَفَرَ.(مسلم: 2222)
نافع اور ضار صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنا :
یعنی نقصان پہنچانے اور نفع دینے والے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہیں ، کائنات میں کوئی چیز انسان کو نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ حضرت معاویہ بن حکَم سُلمی نے نبی کریمﷺ سے بدشگونی کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺنے فرمایا:یہ ایسی چیز ہے جس کو تم اپنے دل میں محسوس کرتےہو ، جبکہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی۔عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطِّيَرَةِ، فَقَالَ:ذَاكَ شَيْءٌ تَجِدُونَهُ فِي أَنْفُسِكُمْ وَلَا يَضُرَّنَّكُمْ.(طبرانی کبیر:19/397)
بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے نہ رُکنا:
یعنی جب کسی چیز میں نحوست اور بدشگونی کا د ل میں خیال آئے تو اُس کام کو کرلیا جائے اور بدشگونی کی وجہ سے ترک نہ کیا جائے ، ان شاء اللہ ! اِس پر عمل کرنے کی برکت سے رفتہ رفتہ وہ بدشگونی کےخیالات دل میں آنا ہی بند ہوجائیں گے۔ نبی