، اگر وہ دائیں جانب اُڑتا یا بھاگ جاتا تو اُس سے نیک شگون لیتے اور اگر بائیں جانب اُڑجاتا یا بھاگ جاتا تو بدشگونی لی جاتی اور اُس کام سے رُک جایا کرتے تھے۔(فتح الباری :10/212 ۔ 214)(عمدۃ القاری :21/245)
نیک فال لینےکا حکم :
نیک فال لینا جائز ہے ،چنانچہ کوئی مریض کسی سے سنے ”یا سالِم “یا کوئی تلاش کرنے والا کسی کو ”یا واجِدُ“ کہتا ہو دیکھے تو اُس سے نیک فال لے سکتا ہے کہ میں صحت یاب ہوجاؤں گا یا مجھے گمشدہ چیز مل جائے گی ۔قافلہ کو بھی اِسی لئے ”قافلہ“ کہا جاتا ہے کیونکہ قافلہ کا مطلب ہے ”لوٹنے والا“ گویا کہ اِ س لفظ میں قافلہ والوں کے بخیریت واپس لوٹ کر آنے کا نیک فال لیا گیا ہے ۔(رد المحتار :2/166)
نبی کریم ﷺ سے قولی اور عملی طور پر نیک فال لینا ثابت ہے ، ذیل میں چند روایات ملاحظہ ہوں :
نبی کریمﷺکا ارشاد ہےکہ :مجھے نیک فال پسند ہے ،صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! نیک فال کیا ہوتا ہے ؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا:اچھی بات ۔ یعنی کسی بات کو سن کر اُس سے اچھا مطلب مرادلیا جائے ۔أُحِبُّ الفَأْلَ، قَالُوا:يَارَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الفَأْلُ؟ قَالَ: الكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ.(ابوداؤد:1615)وَأُحِبُّ الْفَأْلَ الصَّالِحَ.(مسلم:2223) وَيُعْجِبُنِي الفَأْلُ الصَّالِحُ: الكَلِمَةُ الحَسَنَةُ.(بخاری: 5756)
نبی کریمﷺجب کسی حاجت کے لئے نکلتے تو آپ کو یہ سننا اچھا لگتا تھا کہ ”اے راشد! اے نجیح!“یعنی اے ہدایت پانے والے اور اےکامیاب ۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،أَنَّ النَّبِيَّﷺ كَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَنْ يَسْمَعَ: يَا رَاشِدُ، يَا نَجِيحُ.(ترمذی:1616)
ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے کوئی اچھا کلمہ سنا ، آپ کو پسند آیا ، آپﷺنے ارشاد فرمایاکہ ہم نے تمہارے منہ سے نیک فال لے لیا۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ كَلِمَةً فَأَعْجَبَتْهُ فَقَالَ: أَخَذْنَا فَأْلَكَ مِنْ فِيكَ.(ابوداؤد: 3917)
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے کہ نحوست کی کوئی حیثیت نہیں ، ہاں! فال لینا اچھی چیز ہے اور فال لینے کا یہ مطلب ہے کہ کوئی اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنے (اور اُس کا اچھا مطلب مراد لے)۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ