بد شگونی سے متعلّق احادیث طیبہ میں ذکر کردہ الفاظ کی تشریح:
احادیث طیبہ میں بدشگونی سے متعلّق جن چیزوں کی نفی کی ہے اُن کے الفاظ اور مختصر تشریحات مندرجہ ذیل ہیں :
” لَا عَدْوَى “ کا مطلب:
أَي:لَا تَعديَة للمرض من صَاحبه إِلَى غَيره یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگنے کی کوئی حیثیت نہیں ۔
کسی بیمار کے پاس بیٹھنے یا ساتھ رہنے سے کوئی بیمار نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نہ چاہیں ، اللہ چاہیں تو بیمار سے دور رہ کر بھی انسان بیمار ہوجاتا ہے اور نہ چاہیں تو ساتھ رہنے ، کھانے اور پینے سے بھی بیمار نہیں ہوتا ۔واضح رہے کہ اِسلام درجہ سبب میں تو اِس کو تسلیم کرتا ہے ،ذاتی تاثیر نہیں مانتا ۔پس ایک کی بیماری دوسرے کو لگ سکتی ہے ، لیکن اُس کا سبب تعدیہ نہیں ، صرف اور صرف حکمِ الٰہی ہے ۔(تحفۃ الالمعی :4/546)(مرقاۃ المفاتیح :7/2894)
” لَا طِيَرَةَ “ کا مطلب:
”طِیَرَۃٌ“ طاء کے کسرہ اور یاء کے فتح کے ساتھ” التشاؤم بالشَّيْء “کسی چیز سے نحوست لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ”طِیَرَۃٌ“ لغت میں مطلقاً شگون کو کہا جاتا ہے ، خواہ نیک شگون ہو یا بد شگون ، لیکن شرعی اصطلاح میں اِس کا اِطلاق صرف بدشگونی یعنی نحوست لینے کے معنی میں ہوتا ہے اور نیک شگونی کے لئے ”فال “ استعمال کیا جاتا ہے ۔نبی کریمﷺنے حدیث ” لَا طِيَرَةَ “ میں شرعی معنی مراد لیے ہیں ، یعنی بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ، بد شگونی صرف زمانہ جاہلیت کے باطل تصوّرات ہیں ۔زمانہ جاہلیت میں لوگ جب کسی کام کے لئے جاتے تو پرندے کو اُڑاتے یا کسی جانور کو بھگاتے ، اگر وہ دائیں جانب اُڑتا یا بھاگ جاتا تو اُس سے نیک شگون لیتے اور اگر بائیں جانب اُڑجاتا یا بھاگ جاتا تو بدشگونی لی جاتی اور اُس کام سے رُک جایا کرتے تھے۔(فتح الباری :10/214)(عمدۃ القاری :21/245)