یا بچھو کسی کو کاٹ لے تو اُس کے کاٹے کا اثرزائل کرنے کے لئے ہم یہ الفاظ پڑھتے ہیں ” بِسْمِ اللَّهِ شَجَّةٌ قَرْنِيَّةٌ مِلْحَةُ بَحْرٍ قَفْطاً “۔ آپﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی اور اجازت دی .(طبرانی کبیر:10050).(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنّی: 573)
چوتھی شرط: رُقیہ کو مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے :
یعنی رُقیہ کے جواز کے لئے ضروری ہے کہ اُسے مصیبتوں اور بیماریوں کے ازالے کا حقیقی سبب نہ سمجھا جائے ، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ، اور نہ کوئی چیز اللہ کے حکم کے بغیر نفع دے سکتی ہے ،پس یہ عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ اِس عمل میں تاثیر پیدا کریں گے تو نفع حاصل ہوگا،ورنہ نہیں ۔ (عمدۃ القاری:21/262)۔
پانچویں شرط:رُقیہ کے اندر انہماک نہیں ہونا چاہیئے :
رُقیہ اور تعویذ وغیرہ کے اندر ایک شرط یہ بھی ضروری ہے کہ اِس میں بہت زیادہ انہماک بھی نہیں ہونا چاہیئے ، کہ ہر وقت اور ہر کام کے لئے صرف تعویذ اور جھاڑ پھونک میں لگے رہیں ، نبی کریمﷺکی سنت میں بھی رُقیہ کا ثبوت بڑے اعتدا ل کے ساتھ ملتا ہے ، اگر ایسا ہوتا کہ دین و دنیا کا ہر کام صرف جھاڑ پھونک کے ذریعہ ممکن ہوتا تو نبی کریمﷺ کو جہاد کی کیا ضرورت تھی ؟صرف جھاڑ پھونک کرلیتے ، سارے کافر آپ کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتے ،معلوم ہوا کہ آپﷺنے اِس میں غُلو اور انہماک نہیں کیا ہے ۔(اصلاحی خطبات:15/55)
عمل کی تاثیر کے لئے تین اہم امور :
اکلِ حلال : یعنی حلال کھانا۔
صدقِ مقال : سچ بولنا۔
یقین کا درجہ کمال : یعنی قرآن و حدیث کی دعاؤں کے پُر اثر ہونے کا یقین ۔(تحفۃ الالمعی :5/405)