داغنے کے بارے میں متضاد روایات اور اُن میں تطبیق:
اِس کےبارے میں جواز اور عدمِ جواز دونوں طرح کی روایات پائی جاتی ہیں :
جواز کی روایات: نبی کریمﷺ نے حضرت اسعد بن زرارہ کو سرخ پھنسی کی وجہ سے داغ لگوایا۔عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَوَى أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ مِنَ الشَّوْكَةِ.(ترمذی:2050)
نبی کریمﷺ نے حضرت سعد بن معاذ کوتیر لگنے کی وجہ سے(غزوہ احزاب میں بازو کی رگ کٹ گئی تھی اور خون رک نہیں رہا تھا تو آپ ﷺنے )داغ کر علاج کیا ۔عَنْ جَابِرٍأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَوَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ مِنْ رَمِيَّتِهِ.(ابوداؤد:3866)
عدمِ جواز کی روایات: حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے داغ لگوانے سے منع فرمایا۔عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الكَيِّ.(ترمذی:2049)عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: نُهِينَا عَنِ الكَيِّ.(ترمذی:2049)
حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے داغنے سے منع فرمایا۔ پس ہم نے(ضرورت کے موقع پر) داغ لگوایا لیکن اس عمل نے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایااور ہم کامیاب نہیں ہوئے۔عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الكَيِّ فَاكْتَوَيْنَا، فَمَا أَفْلَحْنَ، وَلَا أَنْجَحْنَ.(ابوداؤد:3865)
تطبیق:
جواز کی روایات حالتِ ضرورت پر اور عدمِ جواز کی روایات بلاضرورت پر محمول ہیں۔یعنی جب کوئی اور ذریعہ علاج نہ ہو اور کوئی ماہر طبیب اِس کو بطور علاج کے متعین کردے تو اِس کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔