عَجوہ کھجور جنت کی چیز ہے اور وہ زہر کے اثر سے بھی شفاء حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ.(ترمذی:2066)
عَجوہ کھجور جنت کا پھل ہے ۔وَإِنَّ الْعَجْوَةَ مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ.(مسند احمد: 22938)
عَجوہ عالیہ میں شفاء ہے اور اُس کا صبح سویرے نہار منہ کھانا زہر کے اثر کے لئے تِریاق ہے۔فِي الْعَجْوَةِ الْعَالِيَةِ شِفَاءٌ، أَوْ إِنَّهَا تِرْيَاقٌ، أَوَّلَ الْبُكْرَةِ.(مسند احمد: 24737)عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:فِي عَجْوَةِ الْعَالِيَةِ شِفَاءٌ، وَإِنَّهَا تِرْيَاقٌ فِي أَوَّلِ الْبُكْرَةِ عَلَى الرِّيقِ.(ابن ابی شیبہ: 23480)
عَجوہ کھجور اور صخرہ بیت المقدس جنت کی چیز ہے ۔الْعَجْوَةُ وَالصَّخْرَةُ مِنْ الْجَنَّةِ.(ابن ماجہ : 3456)
حضرت عائشہ صدیقہ سر کی ایک بیماری جس کو ”دُوام “ یا ”دُوار“ کہا جاتا ہے ، اُس میں صبح نہار منہ سات عَجوہ کھجوریں کھانے کا کہتی تھی ۔عَنْ عَائِشَةَ:أَنَّهَا كَانَتْ تَأْمُرُ مِنَ الدُّوَّامِ أَوِ الدُّوَّارِ بِسَبْعِ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ فِي سَبْعِ غَدَوَاتٍ عَلَى الرِّيقِ.(ابن ابی شیبہ: 23479)(النھایۃ لابن الأثیر:2/142)
عجوہ کے جنت کا پھل ہونے کا مطلب :
حدیث میں نبی کریمﷺ نے عجوہ کو جنت کا پھل قرار دیا ہے۔الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ.(ترمذی:2066)اِس کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ برکت میں تمثیل دی گئی ہے ، یعنی عجوہ جنت کے پھلوں کی طرح ایک بابرکت پھل ہے۔نیز یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ واقعۃً یہ جنت سے لایا گیا ہو ، اور مسندِ بزّار کی ایک روایت سے اِس مطلب کی تائید بھی ہوتی ہے ، وہ روایت یہ ہے : لَمَّا أُخْرِجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ، زُوِّدَ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَعَلَّمَهُ صَنْعَةَ كُلِّ شَيْءٍ، فَثِمَارُكُمْ هَذِهِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، غَيْرَ أَنَّ هَذِهِ تَغَيَّرُ وَتِلْكَ لَا تَغَيَّرُ.(مسند البزار:8/45)یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت سے نکالا گیا تو انہیں جنت کے پھلوں کا زادِ راہ بھی دیا گیا اور ہر چیز کی صنعت سکھائی گئی ، پس تمہارے یہ پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں ، البتہ ان پھلوں میں تبدیلی آگئی ہے اور جنت کے پھل بدستور ہیں ۔(تحفۃ الالمعی :5/408)