کا یقینی سبب ہے ۔ایسے اسباب کا اختیار کرنا ضروری اور ترک کرنا حرام ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ایسے اسباب کا تارک اگر ہلاک ہوگیا مثلاً : بھوکا پیاسا ہو لیکن قصداً کھانا پینا نہ کرے اور اسی میں ہلاک ہوجائے تو وہ گناہ گار ہوگا۔
اسبابِ مظنونہ : وہ اسباب جن کاثبوت ظنی یعنی غیر یقینی ہو یعنی مسبب کے پائے جانے اور نہ پائے جانے دونو ں کا
احتمال ہو ۔جیسے :بیماریوں کے ازالے کے لئے علاج و معالجہ کروانا۔ایسے اسباب کا اختیار کرنا توکّل کے خلا ف بھی نہیں اور ترک کرنا حرام بھی نہیں یعنی جائز ہے ۔اور چونکہ یہ اسباب ظنی ہوتے ہیں اِس لئے اگر کوئی علاج نہ کروائے اور اِسی وجہ سے اُس کا نتقال ہوجائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا ۔
اسبابِ موھومہ : وہ اسباب جو تخیّل اور وہم پر مبنی ہوتے ہیں ،جیسے : داغنا، رُقیہ کرنا ۔ایسے اسباب کا اختیار کرنا توکل
کے خلاف ہے ۔( واضح رہے کہ یہ حکم رُقیہ کے بارے میں مطلقاً نہیں ، بلکہ اس کی تفصیل ہے جو رُقیہ کے تحت ملاحظہ فرمائیں) ۔(عالمگیری:5/355)
علاج نہ کروانے والے کا حکم :
علاج کروانا ایک سنت عمل ہے ، نبی کریم ﷺسے بھی علاج کروانا ثابت ہے ، اِسلئے علاج کروانے کا اہتمام کرنا چاہیئے ، لیکن اِس سب کے باوجود اگر کوئی علاج نہ کروائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا ، اور اگر اِسی وجہ سے اُس کا انتقال ہوجائے تو وہ خود کشی نہیں کہلائے گی اور ایسا کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوگا ۔بخلاف کھانا نہ کھانے کے ، کہ اگر اُس کی وجہ سے کوئی بھوک میں مرجائے تو وہ گناہ گار ہوگا ، کیونکہ بھوک کی حالت میں کھانا کھانا رفعِ جوع کا ظاہری اور یقینی سبب ہے ، پس اُس کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوا، جبکہ دواء اور علاج سے شفاء کا حاصل ہوجانا یقینی اور ضروری نہیں ، ایسا کتنی ہی دفعہ ہوتا ہے کہ ایک بیمار کو کسی دوائی کے کھانے سے افاقہ ہوگیا جبکہ دوسرے کو کوئی فائدہ نہ ہو ا ، پس دواء اور علاج کو ترک کرکے کوئی شخص ہلاک ہوجائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔(عالمگیری :5/354)