حالتِ مرض میں گھر میں موجود صحابہ کرام نے یہ سمجھ کر کہ آپﷺ کو نمونیہ ہے ، اور نمونیہ میں لدود کے ذریعہ علاج کیا جاتا تھا ، آپ ﷺکو زبردستی لدود کردیا ،حالآنکہ آپ ﷺ نے منع بھی کیا ،لیکن صحابہ کرام نے آپ کو راحت پہنچانے کے لئے یہ سوچ کر کہ مریض تو دواء کو ناپسند ہی ہوتی ہے ، غشی کی حالت میں آپ ﷺ کو لدود کردیا ۔ بعد میں جب آپﷺہوش میں آئے تو آپ نے اپنے منہ میں دوائی کا ذائقہ محسوس کیا ، آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ مجھے کِس نے لدود کیا ہے ؟ سب خاموش رہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں سب کو لدود کیا جائے یعنی سب کے منہ میں دوائی ڈالی جائے ، چنانچہ سب کے منہ میں دوائی ڈالی گئی، حتی کہ حضرت میمونہ جوکہ روزے سے تھیں ، اُنہیں بھی لدود کیا گیا ،صرف حضرت عباس کو چھوڑ دیا گیا ، کیونکہ آپﷺ نے اُن کو مستثنیٰ کردیا تھا ۔
حضرت عباس لدود کرنے والوں میں شامل تھے یا نہیں :
اِس بارے میں دونوں طرح کی روایت ملتی ہیں ، راجح یہ ہے کہ وہ شامل نہیں تھے جیسا کہ بخاری شریف (رقم:6886) کی روایت میں حضرت عائشہ سے یہی منقول ہے ۔اور اگر وہ شامل بھی ہوں، جیسا کہ ترمذی کی روایت(رقم: 2053) میں ہے تب بھی آپﷺنے اُن کا استثناء ادب و احترام کی وجہ سے کیا تھا ، کیونکہ وہ آپ کے چچا تھے ۔ (تحفۃ الالمعی:5/393)
آپﷺکا لدود کرنے والوں سے انتقام لینے کی وجہ :
علماء کرام نے لکھا ہے کہ آپ کا یہ سب سے انتقام لینا اِس وجہ سے تھا کیونکہ اگر آپ ﷺاُن سے بدلہ نہ لیتے حالآنکہ آپﷺ کو آپ کو اُن سے تکلیف ہوئی تھی تو اُن کے کسی بڑی مصیبت میں پڑنے کا اندیشہ تھا ، پس آپ کا یہ انتقام بھی اُن کے اوپر ایک احسان ہی تھا ۔(تحفۃالالمعی:5/389)
فائدہ : ایک اور طریقہ علاج ہے اُس میں بھی لدود کی طرح دوائی منہ میں ہی ڈالی جاتی ہے ، لیکن منہ کے ایک کنارے میں نہیں حلق میں ٹپکائی جاتی ہے ، اُس کو ”وَجور “ کہتے ہیں ،یعنی دوائی کا حلق میں ٹپکانا ۔یہ بھی بلاکراہت جائز ہے ۔ امام ترمذی نے حضرت نضر کا جو قول لدود کی تفسیر میں۔قَالَ النَّضْرُ: اللَّدُودُ: الوَجُورُ۔ نقل کیا ہے ، وہ درست نہیں ، اِس لئے کہ لدود اور وجور دونوں ایک نہیں ہیں ۔۔(تحفۃالالمعی:5/393)