متقدّمین فقہاءِ احناف: جائز نہیں ہے ۔
جمہور ائمہ اور متاخرین احناف: جائز ہے ۔(الفقہ الاسلامی و ادلتہ:3/ 2104) (بذل المجہود:16/229)
احناف کے متاخرین فقہاء نے بھی ائمہ ثلاثہ کی طرح ضرورۃ ً اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ، اِس لئے کہ قدیم زمانہ میں حکومتِ وقت کی جانب سے مؤذنین ، معلّمین اور ائمہ حضرات کے لئے بیت المال سے وظائف کا سلسلہ ہوا کرتا تھا ، جس سے اُن کو بلا معاوضہ دین کی خدمت کرنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آتی تھی ، لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں ، اب اگر اجرت لینا جائز نہ ہو تو ایسے دین کے کاموں میں مشغول رہنے والے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر معاش کی فکر میں لگیں گے جس سے دین کے اہم کام متاثر ہوکر رہ جائیں گے ۔
پھر احناف کے اِس بارے میں دو فریق ہیں :
یہ ”حبسِ اوقات “کی اجرت ہے، لہٰذا یہ نہ خروج عن المذہب الحنفی ہے اور نہ اجرت علی الطاعت۔
ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے امام شافعی کے مسلک کو اختیار کیا گیا ہے ۔(انتہاب المنن :3/41)
دوسری رائے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ پہلی رائے کے مطابق وہ کام جن میں حبسِ اوقات نہیں، اسی طرح تعطیلات کے ایام کی اجرت جائز نہ ہوگی ۔
امراض و مصائب میں رُقیہ کی چند اہم دعائیں :
قَالَ أَنَسٌ يَعْنِي لِثَابِتٍ أَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَأْسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ، اشْفِهِ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا».(ابوداؤد: 3890)
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ قَالَ عُثْمَانُ: وَبِي وَجَعٌ قَدْ كَادَ يُهْلِكُنِي قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: امْسَحْهُ بِيَمِينِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، وَقُلْ: «أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ، مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ» قَالَ:فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ بِي، فَلَمْ أَزَلْ آمُرُ بِهِ أَهْلِي وَغَيْرَهُمْ.(ابوداؤد: 3891)