رُقیہ شرعیہ کی شرائط:
پہلی شرط:اِستمداد بغیر اللہ نہ ہو ۔
یعنی رُقیہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو، مثلاًبعض اوقات کسی رُقیہ کے کلمات میں”یا فلاں “ کے الفاظ ہوتے ہیں اور اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام ہوتا ہے ، ایسا تعویذ گنڈایا جھاڑ پھونک حرام ہے ۔(اصلاحی خطبات :15/52)
دوسری شرط:ہر طرح کے شرکِ قولی اور عملی سے پاک ہو :
یعنی اگر رُقیہ کے الفاظ کسی شرکیہ جملہ پر مشتمل ہوں یا اُس میں کوئی شرکیہ کام ،مثلاً کسی بت کو سجدہ یا شیاطین کی تعظیم وغیرہ کرنی پڑتی ہو تو یہ سب حرام ہیں اور ایسا کوئی بھی رُقیہ یا تعویذ گنڈا کرنا کسی طور جائز نہیں ۔حضرات صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺسے رُقیہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ.یعنی اگر رُقیہ میں کوئی شرکیہ چیز نہ ہو تو اُس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ.(مسلم: 2200)
تیسری شرط:معنی و مطلب واضح ہو:
رُقیہ کے الفاظ ایسے ہونے چاہیئے جن کا معنی و مطلب واضح ہو ، تاکہ اگر اُس میں کوئی شرک وغیرہ کی بات ہو تو اُس کا علم ہوسکے ، ایسا نہ ہوکہ لاعلمی میں کوئی شرکیہ کام ہو جائے ۔ (عون المعبود:10/266)(عمدۃالقاری: 12/100)
البتہ صرف ایک رُقیہ ایسا ہے جس کا معنی معلوم نہ ہونے کے باوجود بھی وہ جائز ہے ، کیونکہ نبی کریمﷺ سے اُس کی اجازت ثابت ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے عرض کیا کہ ایک ایسا عمل ہے کہ اگر سانپ