جواز کی روایت منسوخ اور ممانعت کی روایات ناسخ ہیں ،پس اِس توجیہ کے مطابق تفصیل یہ ذکر کی گئی ہے کہ عربوں میں چونکہ یہ بات بہت مشہور تھی اور اطبّاء بھی اِس کے مُضر ہونے کو بیان کیا کرتے تھے ، اِس لئے نبی کریم ﷺنے ابتداءً اِس کے منع کرنے کا ارادہ فرمایا، لیکن جب آپ نے روم و فارس کو دیکھا کہ وہ لوگ اِس سے نہیں بچتے اور اُن کو اِس سے کچھ نقصان بھی نہیں ہوتا تو آپ نے اِس کی ممانعت کا ارادہ ترک فرمادیا لیکن پھر آپ کو من جانب اللہ اِس کے بارے میں مُضر ہونا بتلادیا گیا تو آپ نے اِس کے بارے میں نہی فرمائی پس اِس تفصیل کے مطابق دونوں طرح کی روایات جمع ہو جاتی ہیں اور اُن میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا ۔(بذل المجہود:16/211)
علاج بالمحرم کا مسئلہ :
علاج بالمحرّم کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف :
کسی ناپاک اور حرام چیز سے علاج کرنا جائز ہے یا نہیں ، اِس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر حالت اضطرار کی ہو یعنی اگر حرام چیز کو استعمال کیے بغیر جان کا بچنا مشکل ہو تو بقدرِ ضرورت تداوی بالمحرّم بالاتفاق جائز ہے ، لیکن اگر جان کا خطرہ نہ ہو ، بلکہ مرض کو دور کرنے کے لئے تداوی بالمحرم کی ضرورت ہو تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے :
امام مالک واحمد بن حنبل : تداوی بالمحرّم بالکل جائز نہیں ۔
شوافع اور احناف : تداوی بالمحرّم جائز ہے ، بشرطیکہ اور کوئی ذریعہ علاج کا نہ ہو۔
پھر شوافع واحناف میں اختلاف ہے کہ تداوی بالمحرّم کے جواز میں مُسکرات بھی شامل ہیں یا نہیں :
شوافع : مُسکرات شامل نہیں ، چنانچہ نشہ آور اشیاء سے علاج ضرورۃً بھی جائز نہیں ۔
احناف : مُسکرات بھی شامل ہیں ، یعنی ضرورۃً تداوی بالمحرّم مطلقاً جائز ہے ، خواہ مُسکر ہو یا غیر مُسکر۔ (فقہی مقالات :4/138 تا 145)(تحفۃ الالمعی:1/318)(انتہاب المنن :1/151)