غِیلہ کا شرعی حکم :
ایامِ رضاعت میں ہمبستری جائز ہے ، اُس میں شرعی کوئی ممانعت نہیں ، اور جو اُس کے بارے میں ممانعت کی روایت ہے وہ مکروہ تنزیہی یعنی خِلافِ اولیٰ پر محمول ہے ۔(مرقاۃ:5/2095) اِس کا ضرر غالب نہیں، بہت قلیل ہوتا ہے اور بعض اوقات بعض مزاج و طبائع کے حامل لوگوں کو ہوتا ہے ۔(بذل:16/211)
غِیلہ کے بارے میں روایات کا تعارض اور تطبیق:
ممانعت کی روایت :لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ سِرًّا، فَإِنَّ الْغَيْلَ يُدْرِكُ الْفَارِسَ فَيُدَعْثِرُهُ عَنْ فَرَسِهِ.(ابوداؤد:3881)
جواز کی روایت : لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الغِيلَةِ حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّ الرُّومَ،وَفَارِسَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ
فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ.(ابوداؤد:3881)
تعارض دو باتوں میں ہے : ایک مُضر ہونے میں اور دوسرا ممنوع ہونے میں ۔ پہلی یعنی ممانعت کی روایت سے مُضر اور ممنوع ہونا معلوم ہورہا ہے جبکہ دوسری یعنی جواز کی روایت میں ضرر اور ممانعت دونوں کی نفی معلوم ہوتی ہے ۔
تطبیق :
جواز کی روایت میں اصل جواز کو بیان کیا گیا ہے اور ممانعت کی روایات مکروہ تنزیہی پر محمول ہے ۔گویا کہ یہ عمل خلافِ اولیٰ ہے ، ناجائز نہیں ، کیونکہ جواز کے ساتھ نہی تنزیہی جمع ہوسکتی ہے ۔(مرقاۃ:5/2095)
ممانعت کی روایت منسوخ ہیں اور جواز کی روایات ناسخ ہیں ،اِس توجیہ کے مطابق اِس کی تفصیل یہ ہوگی کہ آپﷺنے عربوں کے نظریہ کے مطابق ابتداءً اِس عمل سے منع فرمایا تھا یہ سوچ کر کہ واقعۃً اِس سے بچے کو ضرر پہنچتا ہے ، لیکن بعد میں جب آپ نے یہ دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ بھی یہ کرتے ہیں اور اُنہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا تو آپﷺنے اِس کی اجازت دیدی ۔(تحفۃ الالمعی :5/416)