کہانت کا شرعی حکم :
کہانت کی تمام قسمیں شرعاً مذموم اور قطعاً حرام ہیں ،اِس پر اجرت لینا اور دینا دونوں حرام ہے ، غیب کے علم کے جاننے کا دعویٰ کرنا یا کاہن کے علمِ غیب کے دعوے کی تصدیق کرنا کفر ہے ۔(انتہاب المنن:3/61)(رد المحتار :4/242)
الفَأْلُ و الطِّيَرَةُ۔ یعنی نیک فالی اور بد شگونی
” الفَأْلُ “ اور ”الطِيَرَة“ کامطلب اور فرق:
فال : ”فال “ ہمزہ کے ساتھ اور بغیر ہمزہ کے دونوں طرح پڑھا جاتا ہے ، اِس کی جمع ” فُئُولٌ “ہمزہ کے ساتھ آتی ہے ۔ اِس کا مطلب ”نیک شگونی “ ہے ، یعنی کسی بات سے اچھا مطلب لینا ۔هُوَ أَنْ تَسْمَعَ كَلاَمًا حَسَنًا فَتَتَيَمَّنَ بِهِ۔یعنی نیک فالی یہ ہے کہ کسی سے اچھی بات سن کر اُس سے اچھا مطلب مراد لینا ۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:4/81) اردو میں اِس کی دو قسمیں کی جاتی ہیں یعنی نیک فالی اور بد فالی ، لیکن اصطلاحِ شرع میں فال کا اِطلاق نیک فالی پر ہی ہوتا ہے ، اِسی لئے اِس کا ترجمہ ”نیک شگونی“ سے کیا جاتا ہے ۔اور اردو میں جس کو بدفالی کہتے ہیں ، عربی میں اُ س کوفال نہیں ،” طِيَرَة “کہا جاتا ہے ، یعنی بد شگونی ۔(عمدۃ القاری :21/245)(کشف الباری ،کتاب الطب:86)
طِیرۃ : ”طِیَرَۃٌ“ طاء کے کسرہ اور یاء کے فتح کے ساتھ” التَّشَاؤُمُ بِالشَّيْء “کسی چیز سے نحوست لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ”طِیَرَۃٌ“ لغت میں مطلقاً شگون کو کہا جاتا ہے ، خواہ نیک شگون ہو یا بد شگون ، لیکن شرعی اصطلاح میں اِس کا اِطلاق صرف بدشگونی یعنی نحوست لینے کے معنی میں ہوتا ہے اور نیک شگونی کے لئے ”فال “ استعمال کیا جاتا ہے ۔نبی کریمﷺنے حدیث ” لَا طِيَرَةَ “ میں شرعی معنی مراد لیے ہیں ، یعنی بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ، بد شگونی صرف زمانہ جاہلیت کے باطل تصوّرات ہیں ۔زمانہ جاہلیت میں لوگ جب کسی کام کے لئے جاتے تو پرندے کو اُڑاتے یا کسی جانور کو بھگاتے