احادیثِ ممانعت نہی تنزیہی پر محمول ہیں اور جواز کی روایات اصل جواز پر ۔ اور نہی تنزیہی جواز کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے ۔ اور اِس توجیہ کا حاصل یہ نکلے گا کہ داغنے کے ذریعہ علاج اچھا نہیں ، اِس لئے کہ اِس مین مریض کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ، گویا اِس کا نقصان اِس کے فائدے سے بڑھ جاتا ہے ۔
ممانعت کا تعلّق ہلاکتِ جان کے خطرے سے ہے ، یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے کی وجہ سے فائدے کے بجائے نقصان اور جان کے ہلاک ہونے کا خوف ہو تو داغنے سے گریز کرنا چاہیئے ، لیکن اگر یہ خطرہ نہ ہو تو کیا جاسکتا ہے ۔
ممانعت کا تعلق زمانہ جاہلیت کے فاسد عقیدے سے ہے ، عربوں میں داغنے کے عمل کو علاج کا سببِ مؤثر سمجھتے تھے ، اِس لئے آپﷺنے اِس شرکِ خفی سے بچنے کے لئے اِس کو ممنوع قرار دیا ، پس اگر کسی کا یہ عقیدہ نہ ہو ، بلکہ ظاہری سبب کے طور پر وہ اختیار کرے تو کوئی حرج نہیں ، وہ جائز ہے ۔(کشف الباری، کتاب الطب :541) (انتہاب المنن:2/497)
داغنے کا شرعی حکم :
پس جبکہ علاج کا کوئی اور طریقہ نہ ہو اور ماہر اطبّاء صرف اِسی کو علاج کے طور پر تجویز کردیں جس کو اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہلاکت کا اندیشہ ہو تو ضرورۃً اِس کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔البتہ دوسرا طریقہ موجود ہو تو بلاضرورت اِس طریقہ پرعمل کرنا درست نہیں، کیونکہ اِس میں مندرجہ ذیل خرابیاں اور نقصانات پائے جاتے ہیں: (1)بلاضرورت جسم کو ایک زائد تکلیف میں مبتلاءکرنا۔ (2) جسم کا خراب کرنا ۔ (3)جسم کو آگ کا عذاب دینا ۔(انتہاب المنن:2/497)(بذل المجہود:16/193)
السَّعُوط/ناک میں دواء ٹپکانا:
سَعوط سین کے فتح کے ساتھ ناک میں چڑھائی جانے والی دواء کو کہا جاتا ہے اور سُعُوط سین کے ضمہ کے ساتھ مصدر ہے یعنی ناک میں دائی چڑھانا۔(تحفۃ الالمعی:5/388)سَعوط کا مطلب ہے : دواءٌ یُصَبُّ فی الأَنف۔ناک میں دوائی ٹپکانا۔(بذل)
یہ ایک طریقہ علاج ہے ،جس میں دوائی ناک میں ٹپکائی جاتی ہے اور بیماری کا علاج کیا جاتا ہے ۔