ماضی اور مستقبل کی فکر
انسان سے کوتاہی ہو ہی جاتی ہے لیکن انسانی ضمیر زندگی کو اصل مقصد کی طرف رواں دواں کرنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے، کبھی کسی کتاب یا خطاب سے دل نرم ہوجاتا ہے اور اپنی آئندہ کی زندگی کو درست کرنے کا عزم کرتا ہے، ایسے وقت میں کبھی انسان اپنی پچھلی کوتاہیوں کو دیکھتا ہے تو حسرت و ندامت کی کیفیت اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ مایوسی کے عالم میں چلا جاتا ہے،یہ مایوسی عمل سے فارغ کر دیتی ہے، اور کبھی مستقبل کی فکر بھی انسان کو مستغرق کردیتی ہے، وہ اسی فکر میں محو رہتا ہے کہ میں آئندہ بھی راہ راست پر رہوں گا یا نہیں، میری توبہ کو دوام ملے گا یا نہیں، میں نے جو خیر کی طرف قدم بڑھایا ہے یہ بڑھتا رہے گا یا پیچھے ہٹ جائے گا، الغرض کبھی ماضی اور مستقبل کی فکر بھی انسان کو تفکرات و خیالات میں مشغول کرکے عمل سے دور کردیتی ہے۔
اکابرین نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں پر سچے دل سے توبہ کرلے، پھر بار بار ان کا خیال نہ لائے، اور مستقبل کی سلامتی کے لئے اللہ سے دعا کرتا رہے، اس کے علاوہ ماضی اور مستقبل کی فکر میں نہ لگے، بلکہ زمانۂ حال کو سنوارنے کی فکر کرے، صوفیائے کرام نے کہا ہے کہ ماضی اور مستقبل بھی حجاب ہیں، اس کی فکر میں انسان اصل کام سے محروم رہ جاتا ہے،انسان کو حال کی فکر کرنی چاہئے، ہمارے اختیار میں فقط حال کا زمانہ ہے، اگر ماضی و مستقبل کی فکر میں لگا رہا تو حال کا زمانہ بھی بیکار جائے گا، بشر بن حارث ؒ فرماتے ہیں کہ گذشتہ کل مرگیا، آئندہ کل پیدا نہیں ہوا، اور آج کا دن دوڑ میں لگا ہے،پس اسی کی فکر کرنی چاہئے، شعر:
نہ تو کل کے افسوس میں آج رو
کہ کل رونے بیٹھے گا آج کو
حوادث
انسانی زندگی کا سفر ایک ناہموار راستہ پر ہوتا ہے، نشیب و فراز سفر حیات کا لازمی جز ہے،