انسان اپنی زندگی میں بارہا ہموم و غموم کے بھنور میں پھنستا ہے، اور بارہا مصائب و آلام کا شکار ہوتا ہے،بہت سے انسانوں کے لئے ناگوار حالات سد راہ بن جاتے ہیں، وہ آنے والی پریشانیوں سے ذہنی طور پر تھک جاتے ہیں، اور کسی عمل کی طرف توجہ کرنا ہی نہیں چاہتے، یا اگر عمل کی طرف توجہ ہوتی ہے تو خیال کرلیتے ہیں کہ یہ مصیبت ٹلنے کے بعد اعمال میں مشغول ہوجاؤںگا، اور پھر مصیبت ٹلنے کے انتظار میں اعمال سے چھٹی کرلیتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ مصائب و حالات سے انسان کو کسی وقت بھی اطمینان نہیں ہوسکتا ہے،ایک کے بعد ایک مصیبت آتی رہتی ہے،پس ان حالات میں اعمال سے چھٹی کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ انسان اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ضائع کردے، اس لئے ضروری ہے کہ ہموم و غموم اور مصیبت و تکلیف کے وقت بھی ہمت کرکے خود کو اعمال میں لگائے رکھنے کا عادی بنائے، اور ذہنی انتشار پر قابو پاکر خود کو اعمال کی طرف متوجہ رکھے،باد ِمخالف تو عقاب کی پرواز کو بلند کردیتی ہے، حالات و مصائب سے انسان میں پختگی آتی ہے، اور اس کے اندر استقامت اور استقلال کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،
حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینۂ دل کے لئے گردِ ملال
غم غفلت زدہ طبیعت کو ہوش میں لانے کا ایک سبب ہے،
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لئے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انسان کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم، روح کا ایک نغمۂ خاموش ہے
جو سرود بربط عالم سے ہم آغوش ہے
جو انسان مصائب اور غموں کے اوقات میں مناسب حالات کے انتظار میں رہا وہ نفس کی