عشرت امروز
انسان کی طبیعت لذت حاضرہ کی طرف مائل ہوتی ہے، وہ موجودہ لذت و سرور کی خاطر بعد میں ملنے والے بڑے منافع بھی کھو دیتا ہے، کتنی کھانے کی چیزیں نقصان دہ ہےلیکن وقتی لذت کی خاطر انسان ان کو کھاتا ہے اور مستقبل کا نقصان برداشت کرنے پر تیار ہوجاتا ہے، یہی طبیعت انسان کو آخرت کے اعمال میں لگنے سے مانع بنتی ہے ، اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ﴾
’’ہرگز نہیں،پر تم چاہتے اس کو جو جلد آئے، اور چھوڑتے ہو جو دیر میں آئے‘‘۔
﴿اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ يُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَيَذَرُوْنَ وَرَاۗءَہُمْ يَوْمًا ثَــقِيْلًا﴾
’’یہ لوگ چاہتے ہیں جلدی ملنے والے کو ،اور چھوڑ رکھا ہے اپنے پیچھے ایک بھاری دن کو‘‘
ان آیات میں اللہ نے انسانوں کی اس خصلت کی برائی بیان کی ہے کہ وہ جلدی ملنے والے نفع کو ترجیح دیتے ہیں اور بعد میں ملنے والے نفع کو نظر انداز کردیتے ہیں ،چاہے وہ جلد ملنے والے نفع سے بدرجہا بہتر ہی کیوں نہ ہو، اسی لئے اللہ نے اس کو عجول (بڑا جلدباز) فرمایا، کہیں فرمایا کہ اس کی پیدائش ہی گویا جلدبازی سے ہوئی ہے، علامہ اقبال ؒ نے اس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشۂ کیفیت ِشراب طہور
فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
ِپری کو شیشۂ الفاظ میں اتار نہ تو
مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر، ذکر سلسبیل نہ کر
مقام امن ہے جنت، مجھے کلام نہیں
شباب کے لئے موزوں تیرا پیام نہیں
شباب آہ! کہاں تک امید وار رہے
وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے
وہ حسن کیا کہ جو محتاج چشم بینا ہو
نمود کے لئے منت پذیر فردا ہو