جب صبح صادق ہوجاتی تو تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاتیں تاکہ صبح صادق اچھی طرح روشن ہوجائے، پھر جب صبح روشن ہوجاتی تو ایکدم اٹھ جاتیں، اور اپنے نفس سے خطاب کرکے فرماتیں: يا نفسُ كمْ تنامِين؟ وإلى كمْ لا تقومين؟ يوشكُ أن تنامي نومةً لا تقُومين منھَا إلا لصَرخةِ يومِ النّشورِ۔(اے نفس! تو کتنا سوئے گا، اور کب تک کھڑا نہیں ہوگا، قریب ہے کہ تو ایسی نیند سوجائے جس سے قیامت کی صور سے پہلے اٹھنا نصیب نہیں ہوگا)۔
ضروریات میں وقت لگانے میں بخل
جو وقت کی قدر جان لیتا ہے اس سے تو یہ بعید ہے کہ فضولیات اور بیکار کاموں میں وقت ضائع کرے، مگر کتنے اولیاءاللہ ایسے گذرے ہیں جو ضروریات میں بھی وقت کو کم از کم استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے، اپنی تمام خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اسی قدر طبعی ضروریات میں مشغول ہوتے تھے جس سے زندگی باقی رہے، ان ہی بلند ہمت جواں مرد لوگوں میں ایک حضرت داود طائی ؒ ہیں، آپ پانی میں ستو ملا کر پی لیا کرتے تھے، آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو روٹی کھانے کی خواہش نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: بينَ مضغِ الخبزِ وشربِ الفتيتِ قراءةُ خمسين ايةً۔(روٹی چبانے اور ستو پینے کے درمیان میں پچاس آیتوں کا فرق ہے)۔
سبحان اللہ! یہی تو ہے وقت کی صحیح قدر و قیمت کی پہچان، جس نے ایسے باریک حساب کی طرف بھی ذہن متوجہ کیا،یہ تو آپ کی حالت تھی کہ آپ نے اپنی طبعی ضرورت میں سے پچاس آیتوں کا وقت بچا لیا، اور ہمارا یہ حال ہے کہ عبادت کے اوقات میں سے پچاس لقموں کا وقت بچانے کی فکر لگی رہتی ہے۔
ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ علامہ شمس الدین محمود بن عبد الرحمن اصفہانی ؒ کی علمی پیاس اور حفاظت اوقات کے اہتمام کے متعلق جو باتیں منقول ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ زیادہ