۲ جب میں گذرا ہوا زمانہ یاد کرتا ہوں تو پسلیوں کوتوڑنے والا غم تازہ ہوجاتا ہے۔۳ ہائے افسوس! زمانۂ گذشتہ پراور ایسی زندگی پر جس کے ایام ضائع ہوگئے۔۴ اب بقیہ زندگی میں دوڑ لگااور ماضی کے نقصان کی تلافی کر، ممکن ہے باقی ماندہ زمانہ سود مند ثابت ہو۔
ابراہیم بن ادہمؒ فرماتے ہیں کہ ہم ایک عابد شخص کی عیادت کے لئے گئے، وہ کسی چیز پر افسوس کر رہا تھا اور لمبی آہیں بھر رہا تھا، میں نے کہا یہ افسوس کس چیز پر ہے؟اس نے کہا: مجھے دنیا میں رہنے کا افسوس نہیں ہے، مجھے افسوس ہے اس رات پر جس میں میں سوگیااور اللہ کے سامنے کھڑا نہیں ہوا، اور اس دن پر جس میں میں نے روزہ نہیں رکھا، اور اس گھڑی پر جس میں میں نے اللہ تعالی کی یاد سے غفلت کی۔(تبصرہ لابن جوزی)
ابو محمد عجلیؒ کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کے پاس گیا وہ مرض الموت میں مبتلا تھا، جب میں اس کے پاس گیا تو وہ افسوس کے ساتھ مجھ سے کہنے لگا: سَخِرَتْ بِيَ الدُّنْيَا حَتَّى ذهبت أيامي (دنیا میرے ساتھ مذاق کرتی رہی حتی کہ میری زندگی کے سارے ایام ختم ہوگئے)۔
عمر رفتہ کی قیمت
زندگی کا جو حصہ نکل گیا اس کی قیمت اس میں کئے جانے والے اعمال ہیں، اگر اچھے اعمال سے اس کا حق وصول کیا ہے تو آدمی کو اس کے نکل جانے پر کوئی افسوس نہیں ہوتا ہے، بلکہ اپنی پچھلی زندگی کی کامیابی پر دل فرحت و سرور سے لبریز ہوجاتا ہے، اور بدن کا ہر حصہ اللہ کے شکر کے احساس میں ڈوب جاتا ہے،اگر اس سے پوچھا جائے کہ عمر کا جو حصہ نکل چکا ہے اس کو معدوم سمجھا جائے ،اور آج سے آپ کی زندگی کا حساب شروع کیا جائے، یا یوں کہئے کہ آپ کو نئی زندگی دی جائے تو کیا اس پر راضی ہو؟تو وہ جواب نفی میں دے گا، کیوں ان ایام میں جواہرات مدفون ہیں، اس کی کوششوں اور محنتوں سے کتنے درخت تیار کھڑے ہیں، اس کے ماضی کی زمین گویا ایک سر سبز و