’’کل‘‘ کا لفظ ہے، ابھی تو جوانی ہے،ابھی زندگی باقی ہے، ان خیالات سے شیطان نے ایسی ضرب لگائی کہ پھر اٹھنے کی نوبت ہی نہ آئی اور وقت موعود آپہنچا،اسی لئے بعض علماء نے خصوصیت کے ساتھ دشمن کے اس حربے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے: احْذَرُوا سَوْفَ (سوف سے بچ کر رہنا)۔
قبیلۂ عبد قیس کا ایک آدمی مرض الموت میں مبتلا تھا، لوگوں نے اس سے کہا کہ ہمیں کچھ آخری نصیحت کیجئے، اس نے کہا :أَنْذَرْتُكُمْ سَوْفَ (میں تم کو’’ سوف‘‘ سے ڈراتا ہوں)۔
ابن جوزیؒ نے کسی عمل کو کل پر ٹالنے کی مثال دی ہے جیسے کوئی شخص ایک تن آور درخت کاٹنے کے لئے گیا ، لیکن زیادہ محنت دیکھ کر اس نے اس کام کو ایک سال تک ٹال دیا، اور یہ سوچ کر چلا گیا کہ میں ایک سال کے بعد آکر اس کو کاٹوں گا، لیکن ایک سال کے بعد یہ درخت اور زیادہ مضبوط ہوگا، اور وہ شخص ایک سال کے بعد حال کی بہ نسبت کمزور ہوجائے گا، پھر اس وقت مشقت زیادہ ہوگی، بہت سے لوگ کام کو مستقبل پر ٹال کر ذمہ داریوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن وہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کام کو ٹالنے سے مشقت بڑھتی ہے۔
تن آسانی
تن آسانی بھی انسان کی زندگی کی بربادی کا ایک سبب ہے، محنت سے پیچھے ہٹنا، جد وجہد کرنے سے جی چرانااور آرام و راحت کے مواقع تلاش کرتے رہنا ایسی صفت ہے جو ہلاکت کے لئے کافی ہے، بدن کی راحت میں لگارہنے والا انسان کسی بھی بڑے کارنامے کو انجام نہیں دے سکتا ایسا انسان کسی بھی اچھے کام اور بہترین عمل پر سوتے رہنے اور بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتا ہے، اس کو سختیٔ ِمنزل سے اور راستے کی صعوبتوں سے وحشت ہوتی ہے، اقبال ؒ کا نوحہ سنئے:
جو سختیٔ منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی! ناپید ہے وہ راہی
تن آسانی انسان کو حیوانیت کی سرحد سے ملا دیتی ہے، حیوانات کو سوائے کھانے پینے اور