بسم اللہ الرحمن الرحیم
حامدا و مصلیا
آغاز
آدمیت کو داغدار بنانے والے امراض میں سے ایک شدید مرض بے کاری ہے، یہ دامن انسانیت پر ایک بدنما داغ ہے، اور بے کاری صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے معاش کی فکر نہ کرے، اور کمانے کھانے کے وسائل اختیار کرنے سے گریز کرے، بلکہ بے کاری کی ایک شاخ یہ بھی ہے کہ معاشی جد و جہد سے فرصت ملنے کے بعد کسی دوسری مشغولی سے جی چُرائے، اپنی ذات کو سنوارنے اور علم و عمل میں ترقی کرنے لئے کسی طرح کی حرکت نہ کرے، فکر معاش کے متعلق اور چند اہم دینی فرائض کے متعلق جو روزانہ کا معمول ہے اس سے ذرہ بھی آگے قدم اٹھانے کی فکر نہ کی جائے، کبھی انسان کو یہ خیال نہ آئے کہ فرصت کے اوقات میں کچھ ایسے کام کر جاؤں جس سے دوسروں کو نفع حاصل ہو، یا اپنی ذات کو کمال حاصل ہو، یہ بیکاری اور پست خیالی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ بے کاری انسان کی صلاحیتوں کو خاک میں ملا دیتی ہے، فکر و عمل کی طاقتیں جو قدرت نے ہر انسان کے اندر رکھی ہیں ضائع ہوجاتی ہیں، اور لمبی مدت دنیا میں رہنے کے باوجود انسان اپنے اندر چھپے انمول جواہرات کی قیمت وصول نہیں کرپاتا، اور اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتاہے، بیکاری اور بے حسی کی راکھ قوت تسخیر کو مغلوب کردیتی ہے، اور باطن میں مخفی عظیم طاقتیں ایک عضو معطل کی طرح مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں، جن صلاحیتیوں کو بروئے کار لاکر خالق کائنات کا محبوب بن سکتا تھا، ملائکہ کا مخدوم بن سکتا تھا، کائنات کے ذرے ذرے کا دلربا ہوسکتا تھا، دنیا میں اپنے نام کی خوشبو پھیلا سکتا تھا، اپنے پیچھے اپنی یادوں کی زندہ علامات چھوڑ سکتا تھا، بڑوں کی آنکھوں کا تارہ اور چھوٹوں کے لئے سرمایۂ افتخار بن سکتا تھا، اور جن صلاحیتوں میں نانوتویؒ ، گنگوہی