یہ میری زندگی کا آخری دن ہے
وقت کی قدر دانی کا ایک گُر یہ ہے کہ انسان ہر دن کو اپنی زندگی کا آخری دن خیال کرے، حضرت معاذہ عدویہؒ ایک نیک اور ولیہ خاتون گذری ہیں، آپؒ کے بارے میں آتا ہےکہ جب دن آتا تو فرماتیں: هذا يومي الذي أمُوتُ فيه(یہ میری زندگی کا وہ دن ہے جس میں میری موت آئے گی)پھر وہ شام تک نہ سوتیں، اور جب رات آتی تو فرماتیں: هذه ليلتي التي أمُوتُ فيها(یہ میری وہ رات ہے جس میں میرا انتقال ہوگا) پھر وہ صبح تک آرام نہ فرماتی تھیں، ٹھنڈی کے موسم میں باریک کپڑے زیب تن فرماتیںتاکہ ٹھنڈی کی وجہ سے نیند نہ آسکے۔
بڑا کارآمد نکتہ ہے، اگر انسان یہی سبق یاد کرلے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے تو یہی خیال زندگی کو کارآمد بنانے کے لئے کافی ہے۔
ایام خالیہ کو وصول کر رہا ہوں
(ایام خالیہ(بہ معنی گذرے ہوئے دن) کا لفظ ذکر قرآن میں آیا ہے، اس سے مراد دنیوی زندگی ہے، دنیوی زندگی میں جو نیک اعمال کئے تھے ان کی بنیاد پر قیامت کے دن اللہپ کی طرف سے یہ مزدہ سنایا جائے گا: كُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِيْـــــًٔــــا بِمَا اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَۃِ ’’جو عمل تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلہ میں مزے سے کھاؤ اور پیو ‘‘۔)
حضرت نافع ؒ کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓاپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے ، وہاں انہوں نے دسترخوان بچھایا، اس وقت وہاں سے ایک چرواہا گزرا، حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس سے فرمایا کہ آجاؤ، تم بھی کھانے میں شریک ہوجاؤ، اس چرواہے نے کہا کہ میں روزہ دار ہوں، حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: کیا ایسی شدید گرمی میں روزہ رکھا ہے جبکہ آپ کا کام بھی ایسی وادی میں ہے(جہاں سایہ بھی نصیب نہیں) ؟اس نے کہا :إني واللہ أبادرُ الايامَ الخاليةَ(اللہ کی قسم میں