بیسیوں مرتبہ سوچ کر اب قدم اٹھایا ہے، دکاندار سے کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن دکاندار سمجھ نہیں پاتا،دیکھئے اسے قدم قدم پر پریشانیاں ہیں، کیوں کہ اس کے جسم پر ضعف و امراض کی حکمرانی ہے، اب ذرا اپنے دل سے سوال کیجئے کیا اس انسان نے صحت کے دن پائے تھے؟ کیا اسے بھی کبھی قوت حاصل تھی؟وہ اپنی ضروریات کی تکمیل پر خود قادر تھا؟ کیا اس نے بچپن و جوانی دیکھی؟ کیا اس کے پیر وں میں کبھی ایسی طاقت تھی کہ وہ پچاس قدموں کی جگہ سو قدم چل کر پہنچتا تھا،سینکڑوں قدم چلنے کے بعد بھی اسے تکان کا احساس تک نہ ہوتا تھا؟اورکیا وہ ہاتھ سے وزنی چیزیں بھی اٹھالیتا تھا؟کیا وہ اس دورسے گذرا ہے جس دورسے ابھی ہم گذر رہے ہیں؟ اندر سے جواب آئے گا کہ ہاںیہ سب کچھ تھا اور ایسا تھا کہ اسے ضعف و امراض کی باتوں پر یقین نہ آتا تھا،اور اب یہ حال ہوا ہے کہ گذشتہ کی قوت و توانائی اور صحت ایک خواب نظر آنے لگی، وقت کی رفتار نے غیر محسوس طور سے ایک ایک نعمت اس سے چھین لی۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں جوانی کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے کوئی چیز جیب میں تھی اور وہ گر گئی(جوانی اس طرح چلی جائے گی کہ احساس بھی نہیں ہوگا)۔
اجڑی زندگیوں میں درس عبرت
اور آگے بڑھ کر گردش زمانہ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس نے رواروی میں کتنی زندگیاں کچل ڈالی، کرۂ ارض پر آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے، کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے، زمین پر بسنے والے ہم پہلے انسان نہیں ہیں، ہم سے پہلے اربوں کھربوں انسان لمبی عمریں گزار کر گئے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں مختلف حالات کا سامنا کیا، کبھی رنج و الم اور خوف و ہراس کی وادی میں سرگرداں رہے، کبھی فرحت و سرور کے باغات میں شاداں و رقصاں رہے، کسی نے راحت و آرام کا شیوہ اختیار کیا تو کسی نے جہد مسلسل سے اپنی آخرت سنوارنے کی فکر کی، موت نے ان کی زندگی کو