عذر سے یا کاہلی سے وقت پر وہ عمل نہیں ہوتا، اس سے ہرگز ناامید ہوکر ہمت نہیں ہارنی چاہئے، کیوں کہ ہر نئے مرحلے میں انسان پہلے ٹھوکر کھاتا ہے اور ہر میدان میں پہلے گرتا ہے پھر کامیاب ہوتا ہے، پس آدمی کو چاہئے کہ بارہا نظام کے خلاف ہوجانے پر بھی مایوس نہ ہواور کوشش کرتا رہے، اور چیونٹی سے سبق لے کہ وہ بارہا گرنے کے بعد بھی اپنا ارادہ نہیں بدلتی اور مایوس نہیں ہوتی یہاں تک کہ دیوار پر چڑھ کر رہتی ہے، ایک معتد بہ مدت تک کوشش کرنے کے بعد استقامت نصیب ہوجاتی ہے، اوریہ بھی یاد رہے کہ صادق و مخلص کو ان ناکامیوں میں بھی قیمتی جواہر ہاتھ لگتے ہیں۔
ہیں عقدہ کشا یہ خار صحرا
کم کر گلۂ برہنہ پائی
کسی کو اپنا معاون بنائیے: ایک مسافر کے لئے رفیق سفر بہت اہمیت رکھتا ہے، نیکیوں کی طرف اور اعلی مدارج کی طرف قدم اٹھانے اور تعمیر حیات کا قصد کرنے والے کے لئے ایک معاون ترقی اور کامیابی کا بہترین ذریعہ ہے ، بہتر تو یہ ہے کہ دونوں ساتھی معمولات و وظائف میں مشترک رہیں، اور مسابقت کی کوشش کریں، کیوں کہ مسابقت و مسارعت ولولہ و شوق کا سبب ہے، اسلاف میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دوست آپس میں نیکیوں میں مقابلہ کرتے تھے،لیکن آج اس کا کہیں نام و نشان نہیں، اگر مسابقت کے لئے کوئی ساتھی میسر نہ ہو تو اپنے کسی بے تکلف دوست کو اپنا محاسِب بنادیجئے جو آپ کے معمولات و وظائف کا محاسبہ کرتا رہے، اور کوتاہی پر آپ کو متنبہ کرے، وہ محاسب بے تکلف دوست ہو کہ آپ کی کوتاہیاں اس کے سامنے آنے سے آپ کو شرمندگی نہ ہو، آپ کا خیرخواہ ہو،اس کی خیرخواہی پر یقین ہو، تاکہ تنبیہ کے وقت کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو ، آپ کی ترقی سے اس کو دلچسپی ہو،محض خانہ پُری کرنے والا مددگار ثابت نہیں ہوتا،اور آپ کی ناگواری پر بھی آپ کا مکمل محاسبہ کرنے والا ہو، ا گر مزاج دیکھ کر محاسبہ کیا گیا تو اس کو دوام نہیں مل سکتا،کیوں کہ کیفیات کو بقا نہیں، اگر کوئی ایسا معاون مل جائے تو اس کو اپنے درد کا مسیحا تصور کیجئے۔