ہی کی وجہ سے جہنم سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یقین ہی کی وجہ سے فرائض ادا کئے جاتے ہیں، اور یقین ہی کی وجہ سے حق پر صبر کیا جاتا ہے‘‘۔
حضرت حسن بصریؒ کا یہ بھی فرمان ہے:ما ایقن عبد بالجنۃ والنار حق یقینھما الا خشع و وجل ، وذل و استقام، واقتصر حتی یأتیہ الموت۔(الیقین )’’جب بندہ جنت و جہنم کا ایسا یقین کرتا ہے جیسا کہ یقین کا حق ہے تو وہ خشیت و تقوی سے مزین، تواضع کا پیکر ،استقامت کا پہاڑ اور قناعت کا عادی بن جاتا ہے،یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے‘‘۔
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر ِروح الامیں پیدا
بے فکری
وقت کی بربادی کا ایک سبب بے فکری کا مرض ہے، وقت کیا چیز ہے، اس کی کیا قیمت ہے، اس میں کتنے بڑے فوائد مخفی ہیں، ان باتوں کو سوچنے کی نوبت ہی نہ آئے تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت غفلت کی رَو میں بہہ جائے گا،جب تک ذہن نفع و نقصان سے بے پرواہ ہوگا اور لذت نشو ونما اور تقاضائے خود افزائی سے محروم ہوگا اس وقت تک کچھ حاصل ہونے کی امید بے کار ہے، جب دماغ اپنے منافع کے حصول کے لئے مستعد نہ ہوتو ترغیب و ترہیب کی عبارتیں اور حکمت بھری باتیں بے اثر ثابت ہوتی ہیں، اندر کا تقاضا نہ ہو تو کلی پھول نہیں بن سکتی؛
کلی زورِ نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی
جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی
بے فکری کا نتیجہ ذلت و پستی ، حسرت و ندامت کے سوا کچھ نہیں، یہ آدمی کو نکما بنادیتی ہے، آدمی کی عظمت و رفعت پربے فکری ایک بد نما داغ ہے، اس کے اعلی مقاصد کی راہ میں سنگ گراں ہے۔
لمبی امیدیں
لمبی زندگی کی امید، یا زندگی میں لمبی امیدیں دونوں اوقات کے ضائع ہونے کا سبب