بلکہ ان مجلسوں کا گویا دستور ہی یہی ہے کہ ہاں میں ہاں اور ہنسی میں ہنسی ملاتے جاؤ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ اب تو مجلس میں شرکت نہ کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے، اگر کوئی شخص اپنے گھر میں رہتا ہے اور بازاروں اور فضول محفلوں میں شریک نہیں ہوتا تو اس کو تنبیہ کی جاتی ہے، اور اس’’ گناہ سے توبہ‘‘ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، دوستی اور قدیم تعلقات کا حق ادا کرتے ہوئے بڑی ہمدردی سے کہتے ہیںکہ جناب! پورا دن گھر میں ہی رہتے ہو کیا، کبھی باہر بھی نکلا کرو، گھر سے نہ نکلنے والے کو کمزور اور غبی اور زمانے کے حالات اور وقت کے تقاضے سے بے خبر خیال کیا جاتا ہے۔
غفلت کی نیند
جو لوگ معاش کی فکر سے بے نیاز ہیں، یا معمولی کام کے بعد فرصت ہی فرصت ہے ان لوگوں میں سے ایک بڑی تعدادنے فارغ اوقات کے لئے نیند کا انتخاب کیا ہے، جیسے ہی کام سے فرصت ہوئی بستر اور چارپائی دماغ میں رقص کرنے لگتی ہے، جس صبح کو اللہ نے امت مسلمہ کے لئے بابرکت بنایا ہےاس میں یہ عالم ِخواب کا سفر کرتے ہیں ، یہ زندگی برباد کرنے والا قدم ہے، -خاکم بدہن -ائمۂ کرام میں بھی یہ غفلت نظر آتی ہے ،بڑے افسوس کی بات ہے کہ جن کو اللہ نے خدمت دین کا موقع دیا اور بڑے مقام سے نوازا وہ اس غفلت میں مبتلا ہیں،صبح سے دوپہر تک سوتے رہنا خون کے آنسو رُلانے والی بات ہے، میری اس تلخ نوائی کو تنقید و تحقیر مت سمجھنا، اگر میں نے خود کو پاک اور بڑا تصور کرتے ہوئے لکھا ہے تو مجھ سے بڑا بدبخت کوئی نہیں، یہ سراسر خیر خواہی ہے، ہمیں انبیاء کرام ، صحابہ اور اولیاء کی زندگی پیش نظر رکھنی چاہئے، ان کی توصیف میں قرآن کا بیان ہے: كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۔’’وہ لوگ رات کو کم سوتے تھے‘‘۔ تَـتَجَافٰى جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا۔’’اُن کے پہلو خوابگاہوں سے الگ رہتے ہیں اس طور پر کہ وہ اپنے رب کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں‘‘۔ فکفی بہم قدوۃ۔