باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں ‘‘۔
لغویات میں وہ تمام اعمال و اقوال اور خیالات و تفکرات شامل ہیں جن میں نہ کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ دنیوی، امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ لغو اس کام کو اور ایسی بات کو کہتے ہیں کہ اگر وہ کام نہ کیا جائے یا وہ بات نہ کہی جائے تو کوئی گناہ نہ ہو، اور اس کو فی الحال یا مستقبل میں کوئی نقصان نہ ہو، جیسے کسی نے سفر کیا، اور سفر کے بعد دوستوں کی مجلس میں بیٹھ کر سفر میں جو کچھ دیکھا حسین پہاڑ، دلکش نہریں، کھانے پینے اور پہننے کی نئی چیزیں بیان کرنے لگا، تو یہ باتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ بیان نہ کی جاتیں تب بھی کوئی نقصان ہونے والا نہیں تھا، اس لئے یہ لغو کام ہے، اور وقت کی بربادی ہے، اگر اس وقت کو تسبیح یا کسی ذکر میں صرف کرتا تو جنت میں لمبے اونچے درخت اور خوبصورت صاف شفاف محلات تیار ہوتے۔(ماخوذ از مرقاۃ)
اگر فرصت سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے تو لایعنی مشاغل کے بہ جائے کوئی کارآمد مشغلہ تلاش کرنا چاہئے، سب سے بہترین مشغلہ عبادت ہے جو کہ انسان کا مقصد حیات ہے، حضرت عمار بن یاسرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے : كفى بالعبادةِ شغلًا (المقاصد الحسنۃ) ’’مشغولی کے لئے عبادت کافی ہے‘‘۔
بد نما داغ
جہاں مقاصد جلیلہ کی طرف توجہ کرنا انسانیت کے لئے ایک کمال ہے کیوں کہ وہ بلند ہمتی کا نتیجہ ہوتا ہے، وہیں معمولی مقاصد میں کھوجانا آدمیت کے لئے ایک بدنما داغ ہے، کیوں کہ جو طبیعت پستی مائل ہوتی ہے اسے بلند مقاصد کی طرف التفات ہی نہیں ہوتا، اس کے متعلق حضرت تھانوی ؒ کے ملفوظات میں دو ٹوک الفاظ میں مذمت ملتی ہے، فرماتے ہیں:
اگر کسی آدمی کے اندر حقیقی کمالات پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ خود بہ خود فضولیات اور عبث