كَأنَّ الْمَوْتَ يَا ابْنَ أَبِي وَأُمي
وَإِنْ طَالَتْ حَيَاتُكَ قَدْ أَتَاكَا
أَتنعِي الْميتينَ وَأَنْتَ حَيّ
إِذَا حَيّ بِمَوتِكَ قَدْ نَعَاكَا
إِذَا اخْتَلَفَ الضّحَى وَالْعَصرُ
دَأْبًا تَسُوقُهُمَا الْمَنِيّةُ أَدرَكَاكَا
’’اے میرے بھائی! یوں سمجھ گویا تیری موت آگئی اگرچہ تیری عمر لمبی ہو ،کیاتو زندہ رہ کر مرنے والوں کے موت کی خبر دیتا ہے جبکہ کوئی دوسرا زندہ شخص تیرے موت کی خبر دے چکا ہے، جب صبح اور شام مسلسل گردش میں ہیں جن کو موت ہانک رہی ہے تو وہ تجھے ضرور پالیں گے‘‘۔
اس مختصر زندگی کے راحت و آرام کے لئے ابدی زندگی کی دائمی نعمتوں سے غافل رہنا کس قدر خسارہ کی بات ہے ، اس مختصر زندگی کے لئے ہمارا یہی فیصلہ ہونا چاہئے:
یہ کہاں کا فسانۂ سود و زیاں
جو گیا سو گیا جو ملا سو ملا
کہو دل سے کہ فرصت عمر ہے کم
جو دلا تو خدا ہی کی یاد دلا
وقت میں فضول حصہ نہیں ہے
بعض لوگ فارغ اوقات سے اکتاتے ہیں، اور جن اوقات میں کوئی مشغلہ نہیں ہوتا ان کو نکالنے کے لئے(ٹائم پاس کرنے کے لئے) کوئی فضول مشغلہ تلاش کرتے ہیں، لیکن یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے، وقت کا ہر حصہ کار آمد ہے، اس کا کوئی حصہ فضول اور بیکار نہیں کہ غفلت و سستی میںیا لغو کام میں ضائع کیا جائے یا کسی دوسرے وقت کے انتظار میں موجودہ وقت کو بیکار نکال دیا جائے،’’ الزہد الکبیر‘‘ میں بیہقی ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں:
العُمرُ قَصير، وَالوَقتُ ضيقٌ، وَالايامُ تقضى وليسَ في الوَقتِ فضلٌ۔
’’عمر مختصر ہے، اور وقت تنگ ہے، اور ایام زندگی فنا ہورہے ہیں، اور وقت کا کوئی حصہ فضول نہیں ہے‘‘۔