ہمارا معاشرہ اور وقت
یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اپنی زندگی کو ٹھکانے لگادیا، ایک نظر ہم اپنے حال پر کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا معاملہ وقت کے ساتھ بڑا افسوس ناک ہے، عام طور پر اس کے ساتھ لوگوں کا معاملہ بڑی ناقدری کا ہے،چوبیس گھنٹے میں کتنے گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم بےکار نکال دیتے ہیں، سال میں کتنے دن بے سود نکل جاتے ہیں، بازاروں اور ہوٹلوں پر مجلس جماکر بیٹھنا ہمارے معاشرے کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، آج کل چیزوں کی مہنگائی کا بڑا شکوہ کیا جاتا ہے، لیکن وقت جو انمول چیز ہے اس کو اس قدر سستا سمجھ لیا ہے جیسے کوئی چند ٹکوں کی چیز ہو، ہمارے یہاں دس روپئے کے برابر بھی وقت کی قدر نہیں ہے، دس روپئے ضائع ہونے پر دل میں اتنا خیال تو آتا ہے کہ میرا کچھ نقصان ہوگیااگر چہ اس کو معمولی سمجھ کر اس کازیادہ غم نہ کرے، لیکن وقت جیسی انمول چیز ضائع ہونے پر نقصان کا احساس بھی دل پر نہیں گزرتا،ابن جوزی ؒکے کلام میں کس قدر سچائی ہے! آپؒ لکھتے ہیں: اکثر لوگ وقت کو بیکار کاموں میں ضائع کرتے ہیں، میں نے عام طور پر دیکھا ہے کہ لوگ عجیب طریقے سے وقت کو نکال دیتے ہیں، اگر رات کو دیر تک بیدار رہتے ہیں تو ایسی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں جن کا کوئی حاصل نہیں ، اور صبح دیر تک سوتے ہی رہتے ہیں، اور دن کے باقی حصوں میں سیر گاہوں اور بازاروں اور نہروں پر نظر آتے ہیں۔ (قیمۃ الزمن)
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
حد تو یہ ہے وقت کو نکالنے کے لئے بے فائدہ مشاغل کو تلاش کیا جاتا ہے، بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنے فارغ اوقات میں اچھے کاموں کی تلاش میں رہتے ہوں، اور اگر کبھی وقت ضائع ہوگیا تو دل نے ملامت کرتا ہو ، ایسے لوگوں کو اگر تلاش کیا جائے تو سینکڑوں میں بھی ایک ملنا مشکل ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کبریت احمر کی طرح نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔