آگے بڑھ گئے،اور میں پیچھے رہ گیا)، آپؒ حسرت کے ساتھ اپنے نفس سے خطاب کرکے کہتے تھے: اے یزید تجھ پر افسوس ہے، کون ہے جو موت کے بعد تیری طرف سے نماز پڑھے گا؟ کون ہے جو موت کے بعد تیری طرف سے روزہ رکھے گا؟ کون ہے جو موت کے بعد تیری طرف سے تیرے رب کوراضی کرے گا؟( صفۃ الصفوہ، العاقبہ)
حضرت ثابت بنانی ؒ ہر رات تین سو رکعات پڑھا کرتے تھے، پھر بھی جب صبح ہوتی تو یہ فرماتے تھے : مَضى العَابدُونَ وانقطعَ بي والهفاه ’’عابدین تو راستہ پار کر گئے اور میں پیچھے رہ گیا، بڑا افسوس ہے‘‘۔
حضرت رحلہ عابدہ ؒکی عجیب بات
حضرت رحلہ عابدہ ؒ کے پاس چند علماء گئے تاکہ ان کو نفس پر نرمی کرنے کے متعلق سمجھائے، جب انہوںنے ان سے نرمی کی درخواست کی تو آپؒ نے فرمایا :
ما لي وللرِفقِ بهَا، إنما هيَ ايامُ المبادرةِ، فمنْ فاتهُ اليومَ شيءٌ لمْ يدركهُ غدًا، واللهِ يا إخوتاه لاصلِين للهِ ما اَقلّتْني جوارحي، ولاصومنّ لهُ اَيامَ حياتي، وَلأبكین لهُ ما حملتِ الماءَ عيني۔
’’میرا نفس پر نرمی سے کیا تعلق؟ یہ تو آگے بڑھنے کے دن ہیں، آج اگر کسی سے کوئی عمل فوت ہوگیا وہ کل اس کی کمی کو پورا نہیں کر سکے گا، برادران من ! واللہ جب تک میرے اعضاء مجھے اٹھائے رکھیںگے ضرور بالضرور میں اللہ کے لئے نماز پڑھتی رہوںگی، اور میری زندگی کے دنوں میں اسی ذات کے لئے ضرور بالضرور روزے رکھوںگی، اور جب تک میری آنکھوں میں آنسوؤں کا ذخیرہ رہے گااسی پاک ذات کے لئے روتی رہوںگی ‘‘۔
پھر آپ نےان لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے