باپ نے کہا: بیٹی ! آخرت کے بارے میں کچھ بتاؤ، بیٹی نے کہا: يا أبت! قدمنا على أمر عظيم، نعلم ولا نعمل وتعملون ولا تعلمون والله لتسبيحة أو تسبيحتان أو ركعة في عملي أحب إلي من الدنيا وما فيها.(اھوال القبور)’’ابا جان! ہم عظیم الشان معاملے کی طرف آئے ہیں، ہم نے سب کچھ جان لیا، لیکن عمل نہیں کر سکتے، اور تم عمل کرسکتے ہو لیکن جانتے نہیں ہو، اللہ کی قسم !میرے اعمال میں ایک دو تسبیح کا یا ایک رکعت کا اضافہ مجھے دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
الزهد والرقائق میں ابن مبارکؒ نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سفر پر تشریف لے جا رہے تھے،راستے میں ایک قبر کو دیکھا تووہاں سواری سے اتر گئےاور اتر کر دو رکعات نماز پڑھی ،لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ نے ابھی جو عمل کیا وہ کوئی نیا عمل معلوم ہوتا ہے، آپ ایسا نہیں کرتے تھے، آپؓ نے جواب دیا : ذَكَرْتُ أَهْلَ الْقُبُور، وَمَا حِيلَ بَيْنَهُمْ وَبينهُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتقَربَ إِلى اللَّهِ بِهِما۔ ’’(قبر دیکھ کر )مجھے قبر والوں کی حالت یاد آئی کہ ان قبر والوں اور اعمال کے درمیان آڑ کردی گئی، (آج وہ لوگ چاہتے ہوئے بھی نماز پڑھنے سے عاجز ہیں) اس لئے میں نے یہ دو رکعات پڑھ کر اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہا‘‘۔
صفۃ الصفوۃ میں ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ عمرو بن قتیبہ بن فرقد ؒ رات کے وقت اپنے گھوڑے پر نکلتے ، اور قبرستان کی طرف جاتے، اور قبر والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے:يَا أَهْلَ الْقبور، قَدْ طُوِيَتِ الصحُفُ، وَقَدْ رُفِعَتِ الْأَعْمالُ۔(اے قبر والوں! تمہارے صحیفے لپیٹ لئے گئے، اور اعمال اٹھالئے گئے) ،پھرآپ پر گریہ طاری ہوجاتا، اور پوری رات وہاں پیروں پر کھڑے گزار کر فجر کی نماز میں شریک ہوجاتے۔
موت کے بعد حسرت رہ جائے گی
مثل مشہور ہے ’’قدرِ نعمت بعد زوالِ نعمت‘‘ یعنی جب تک نعمت رہتی ہے اس وقت اس