خیر و برکت کی چیز ضائع نہیں کی جاتی، بلکہ اس کی حفاظت کرکے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
لا يتمنّى أحدكُم الموْت وَلا يَدعُو به من قبل أَن ياتيه وَإنه إِذا ماتَ انقطع عمله وإنه لا يزيد المؤمن عمره إلا خيراً۔ (صحیح مسلم)
’’تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے اور نہ ہی موت کو اس کے وقت سے پہلے پانے کی دعا کرے اسلئے کہ جب موت آجاتی ہے تو انسان کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، نیز مومن کی عمر اس کے خیر ہی میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔
حضرت ام الفضل ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت عباس ؓ بیماری کی وجہ سے موت کی تمنا کر رہے تھے اس حال میں رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عباس! اے میرے چچا!موت کی تمنا نہ کرو، اس لئے کہ اگر آپ نیکوکار ہیں تو آپ کی زندگی آپ کے لئے خیر کا باعث ہے کہ وہ آپ کی نیکیوں میں اضافہ کا سبب بنے گی، اور اگر آپ گنہگار ہیں تب بھی آپ کی زندگی آپ کے لئے خیر کا باعث ہے کہ آپ اپنی برائی سے باز آسکتے ہیں، لہذا آپ موت کی تمنا نہ کیجئے۔ (مستدرک حاکم)۔
بازی لگانے کا میدان
یہ زندگی دوڑ کا میدان ہے،دوڑ کے میدان میں انسان سب لوگوں پر سبقت لے جانے کے لئے اپنی پوری طاقت لگاتا ہے تاکہ وہ آگے بڑھ کر عزت و اکرام اور نیک نامی حاصل کرے، آج عمل کے میدان میں جتنی محنت و کوشش کی جائے گی حشر کے میدان میں اسی جیسا بہترین نتیجہ سامنے آئے گا، اور اکرام و اعزاز سے سرفراز ہوگا، اور اگر آج دوڑ کے میدان میں سستی اور کاہلی