غلام کو کسی بات کا حکم کرے، پھر یہ چاہے کہ وہ اس میں کوتاہی کرے (بلکہ ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میرا حکم اچھی طرح پورا کرے اسی طرح اللہ تعالی کو بھی یہی پسند ہے کہ میرے بندے میرے احکامات کی بجاآوری میں اور میری عبادت میں چستی سے کام لیں)۔
مشغولی کی نرالی مثال
حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سری سقطی ؒ ہمیشہ اوراد و وظائف میں مشغول رہتے تھے، حضرت جنید ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سری ؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے معمولات میں سے کوئی معمول کسی عذر سے چھوٹ جاتا ہے تو میں بعد میں اس معمول کو پورا نہیں کرسکتا ہوں (معمولات کی کثرت کی وجہ سے فوت شدہ معمول کو پورا کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا)۔
یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ شب و روز میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہوتا ہو، واقعی اپنا نصیب تو ان حضرات ہی نے چمکایا، دنیا سے وہ چلے گئے اور ان کے وہ معاصرین بھی جنہوں نے عیش و عشرت اور لہو و لعب کے لئے اپنی زندگی کو قربان کردیا ، لیکن کل قیامت میں دونوں کے درمیان مشرق و مغرب کا فرق ہوگا، یہ فرحت و سرور کی انتہاء کو پہنچے ہوں گے اور وہ حسرت و ندامت سے خود اپنے وجود سے نفرت کرتے ہوںگے۔
حضرت عثمان بن عیسی باقلانی ؒ اور وقت کی قدر
ابو محمد بن محمد العباسیؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن میرے ماموں کے ساتھ عثمان بن عیسی باقلانی ؒ کی صحبت میں رہا، وہ مسجد سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے اس حال میں ہم ان سے ملے، آپ اس وقت تسبیح پڑھ رہے تھے، میرے ماموں نے ان سے کہا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیجئے، آپ نے فرمایا کہ ابو عبد اللہ! آپ نے مجھے مشغول کردیا، آپ بھی اس کام میں مشغول ہوجاؤ جو آپ میرے اندر گمان کررہے ہو، اور آپ میرے لئے دعا کرو، پھر میں نے حضرت سے