وقت کا ضیاع موت سے بھی سخت ہے
علامہ ابن قیم جوزیؒ اپنی کتاب الفوائد میں لکھتے ہیں:
إِضَاعَة الْوَقْت أَشد من الْمَوْت لِأَن إِضَاعَة الْوَقْت تقطعك عَن اللہ وَالدَّار الْآخِرَة وَالْمَوْت يقطعك عَن الدُّنْيَا وَأَهْلهَا، الدُّنْيَا من أَولهَا إِلَى آخرهَا لَا تَسَاوِي غم سَاعَة فَكيف بغم الْعُمر، أعظم الرِّبْح فِي الدُّنْيَا أَن تشغل نَفسك كل وَقت بِمَا هُوَ أولى بهَا وأنفع لَهَا فِي معادها كَيفَ يكون عَاقِلا من بَاعَ الْجنَّة بِمَا فِيهَا بِشَهْوَة سَاعَة۔
’’وقت کا ضائع کرنا موت سے بھی زیادہ سخت ہے، کیوں کہ وقت کا ضائع کرنا تجھے اللہ سے اور آخرت سے دور کردے گا، اور موت تجھے دنیا اور اہل دنیا سے کاٹ دے گی، دنیا اول سے لے کر آخر تک اس لا ئق نہیں کہ اس کے لئے ایک گھڑی کا غم برداشت کیا جائے، پس اس کے لئے زندگی بھر کا غم کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے، دنیا میں سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ تو ہر وقت نفس کو ایسے کام میں مشغول رکھے جو اس کے لئے آخرت میں مناسب اور سودمند ثابت ہو، وہ شخص کیسے عقلمند ہوسکتا ہے جو جنت کو اس کی تمام نعمتوں سمیت ایک گھڑی کی شہوت کے بدلے میں بیچ دیتا ہے‘‘۔
کہا جاتاہے : من علامة المقت، إضاعة الوقت۔’’مبغوض اور ناپسندیدہ ہونے کی ایک علامت وقت کو ضائع کرنا ہے‘‘۔
تن پروری انسانیت کے لئے عار ہے
کیا کھانا ،پینا اور سونا یہی زندگی ہے؟ ایک انسان کماکر اہل خانہ کے لئے وسائل کا انتظام کرتا ہے، گھر میں وقت پر کھانا تیار ہوتا ہے، سب مل کر شکم سیر ہوجاتے ہیں، یہی روزانہ کا نظام بنا ہوا ہے، کیا ایسے شخص نے اپنی منزل تک رسائی حاصل کرلی؟ کیا انسان محض کھانا ہضم