لشکر کو شکست دینے والے سخت لوگ، بہت سے شمشیر چلانے والے بہادر، بہت سے چاند سے مکھڑے والے شمشاد جیسے قد والے، بہت سے نازوں میں پلے ہوئے آفتاب جیسے رخسار والے، بہت سے ماہتاب کی سی صورت والے نوجوان، بہت سی نئی سجی دلہنیں، بہت سے نامور اور کامیاب لوگ، بہت سے سرو جیسا سیدھا اور لمبا قد رکھنے والے پھول جیسے نرم اور خوش رنگ رخسار والے، ان تمام لوگوں نے زندگی کا پیرہن چاک کیااور موت کی آغوش میں چلے گئے، اور مٹی کے گڑھے میں جا بسے، ان کی زندگی کا کھلیان اس طرح ہوا کی زد میں آگیا کہ پھر کبھی کسی کو ان کا نشان تک نہ ملا، اے بیٹے !دنیا کو قرار نہیں ہے، اس میں عمر عزیز کو غفلت میں مت گنوادینا‘‘۔
قد نادت الدنیا علی نفسھا
لو کان فی العالم من یسمعُ
کم واثقِ بالعمر افنیتُہ
وجامعٍ بددتُ ما یجمعُ
جی ہاں! رفتار زمانہ کی زد میں آگئے ، ہم بھی اس کی دسترس سے محفوظ نہیں ہے،کاش ان کی کہانی ہمارے لئے درس عبرت ثابت ہو۔
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کردے گی بالکل صفایا
نوحہ کرنے کی نوبت نہ آجائے
سفر زندگی جب اختتام پذیر ہوگا،اور زندگی چراغِ سحر کی طرح ٹمٹماکر ہمیشہ کے لئے بجھ جانے پر آمادہ ہوگی، جب جوانی اور عمل کاموقع نکل چکا ہوگا، اس وقت انسان زندگی کی آخری سرحد پر کھڑا رہ کر اپنی پچھلی زندگی پر نظر ڈالے گاتو اسے وقت اور زندگی کی بربادی پر بڑا افسوس ہوگا، اور یہ اشعار یاد آجائیںگے:
أعَيناي!هَلا تبكيانِ عَلى عُمرِي
تَناثرَ عُمْرِي من يَدِي ولا أدرِي