حضرت فقیہ الامت اور وقت کی قدر
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نوراللہ! کیا خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔(ماہنامہ دار العلوم ،رجب ۱۴۲۷ ھ)
اسلاف کی محنت
سلف صالحین کے واقعات سے کتابوں کے صفحات مزین ہیں، انہوں نے عبادت میں اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال میں ایسی محنتیں کیںکہ آج ہم اس کی تمنا بھی نہیں کرسکتے، حضرت سعید بن مسیبؒ نے پچاس سال عشاء کے وضوء سے فجر پڑھی، اور دن میں مسلسل روزے رکھتے تھے، عامر بن عبد قیسؒ پورا دن نماز میں اور درس دینے میں نکال دیتے تھے، حضرت عمیر بن ہانی ہر روز ایک لاکھ مرتبہ تسبیح پڑھتے تھے، حضرت کرزؒ ایک دن میں تین قرآن ختم کرتے تھے، منصور بن معتمر ؒ نے چالیس سال تک روزے رکھے، دن میں روزہ رکھتے ، اور رات میں نوافل میں مشغول ہوتے، ابو بکر بن عیاشؒ نے اپنی زندگی میں اٹھارہ ہزار سے زائد قرآن ختم کئے ہیں، اسلاف میں کتنے علماء ایسے ہیں جو تصانیف کی اتنی بڑی تعداد چھوڑ کر گئے ہیں کہ عقلیں حیران ہیں، وہ حضرات جو علمی ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں ہم اپنی زندگی میں آسانی سے مکمل پڑھ بھی نہیں سکتے، علاقۂ پالن پور گجرات کے تبلیغی ذمہ دار مرحوم یوسف بھائی ؒ (چنگواڑا والے)کے متعلق ایک معتبر معتمد عالم دین