دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر آرام کا خیال خاطر میں نہ لائیے،بلکہ آپ باقی اوقات میں دوسری عبادات میں مشغول ہوکر اپنے آپ کو تھکائیں،اور کب تک اور کتنا تھکانا ہے اس کی کوئی حد نہیں بتائی ہےبلکہ فرمایا کہ اپنا ہدف قرب الہی کو بنائیے، اور جس طرح قرب الہی کے درجات کی کہیں انتہا نہیں آپ کے جد و جہد اور محنت و مشقت کی بھی کوئی انتہا نہیں ہونی چاہئے، بلکہ ہر منزل پر پہنچ کر اگلی منزل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں لگنا چاہئے، چنانچہ آپ ﷺ نے اس پر عمل کرکے دکھایا،آپﷺ خود کو اتنا تھکاتےاور اتنا طویل قیام فرماتے کہ پاؤں مبارک متورم ہوجاتے، کبھی آرام فرمانے کے لئے بستر پر تشریف لے جاتے ، لیکن پھر بے قرار ہوکر اٹھ جاتے اور مصلی پر اپنے رب کے سامنے راز و نیاز میں مشغول ہوجاتے، آپﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ اس قدر کیوں مشقت اٹھاتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے آپ کی مغفرت کا اعلان فرمادیا ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں : تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔
آپﷺ کے متبعین کو بھی چاہئےکہ آپ کی سیرت کو اختیار کرتے ہوئے فرصت کے اوقات میں عبادت اور آخرت کی تیاری میں خود کو تھکائیں، تھکانے کا مطلب یہ ہے کہ چند اعمال پر قناعت نہ کریں، بلکہ جب تک تھکن کا احساس نہ ہو وہاں تک بلند مراتب ِقرب کی طرف رغبت کرنے سے عاجز نہیں ہونا چاہئے۔
مسارعت و مسابقت
زندگی میدان عمل ہے، اس میں اللہ کی طرف دوڑ لگانی چاہئے، قرب الہی کے مراتب لامحدود ہیں، اور زندگی محدود اور مختصر ہے، اس مختصر زندگی میں جس نے تیز رفتاری سے مسافت قطع کی وہ اعلی مراتب تک ترقی کرے گا،جنت کی نعمتوں کے لئے اور اس کے بلند درجات کے لئے جس قدر بھی حرص کی جائے کم ہے ، اللہ تعالی اپنے بندوں کو ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: