نظام الاوقات : وقت کی حفاظت کے لئے نظام الاوقات اکابر کا مجرب نسخہ ہے، نظام الاوقات سے وقت بیکار نہیں جاتا، اور اللہ کی طرف سے اس میں برکت ہوتی ہے، حضرت تھانویؒ کے خلیفہ عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبر الحیؒ بارہا فرمایا کرتے تھےکہ عمر بھر کے تجربہ کی ایک بات بتاتا ہوں کہ اپنے نظام الاوقات کی پابندی کرو، وقت بڑا گراں قدر سرمایہ ہے، اگر وقت پر کام کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس پر مداومت حاصل کرلی تو پھر وقت تمہارا خادم بن جائے گا، حضرت اپنے معمولات وقت پر ادا کرنے کی ایک مثال تھے، حتی کہ ایک مر تبہ آپ کو تلاوت میں مشغول دیکھ کر ایک طالب علم اپنی گھڑی اس بنیاد پردرست کرنے لگا اور وقت ملانے لگا کہ آپؒ روزانہ ٹھیک اسی وقت تلاوت کرتے تھے ۔ (سوانح و تعلیمات حضرت عارفیؒ ۲۱۸)
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ آپ بیتی میں لکھتے ہیںکہ میں نے اپنے اکابر کو بھی نظم اوقات اور معمولات کی پابندی کا بہت ہی پابند پایا، میرے والد صاحب کا تو خاص معمول تھا کہ اپنے مخصوص شاگردوں سے سب سے پہلے کام جو لیتے وہ یہ تھاکہ نظام الاوقات ان سے ہی بنواکر اس میں مطالعہ، کھانا، سبق سب آجاوے اس کو ملاحظہ فرماکر اگر اصلاح کی کوئی ضرورت سمجھتے تو اصلاح کرکے اس کے حوالے فرمادیتے، اور پھر اس پر پابندی کی تاکید فرماتے، اور نگرانی بھی فرماتے تھے، اس کے بعد حضرت شیخ ؒ نے اکابر کے چند واقعات نظام الاوقات اور اس کی پابندی کے تحریر فرمائے ہیں، اس میں یہ بھی لکھا ہے: حضرت حکیم الامت قدس سرہ کا ارشاد ہے کہ میرے اوقات ایسے گھرے ہوئے اور بندھے ہوئے ہیں کہ پانچ منٹ کا بھی حرج ہوجاتا ہے تو دن بھر کے کاموں کا سلسلہ گڑبڑ ہوجاتا ہے، پھر چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں: حضرت حکیم الامتؒ نے صحیح فرمایا انضباط اوقات سے جتناکام عمدہ اور اچھا ہوسکتا ہے بغیر انضباط کے نہیں ہوتا، پھراس کے بعد حضرت شیخ ؒنے خود اپنے مریدین اور شاگردوں سے اس کی تاکید کی تفصیل تحریر فرمائی ہے۔